سیاسی تفریق

عالمی سطح پر پاکستان کو درپیش سفارتی مسائل ایک عرصے سے زیربحث ہیں مگر حالیہ چند برس میں چند نئے مسائل کا اضافہ بھی ہوا ہے جس نے سیاسی ماحول کو اگر آتشزدہ نہیں کیا تو کم از کم اِس کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ضرور کیا ہے۔ اگر اِس ذیل میں اہم ترین یا بڑے مسائل کا ذکر کیا جائے تو اس میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جاری محاذ آرائی اور خراب ہوتی معاشی صورتحال ہے‘ جس کے سبب سیاسی ہم آہنگی ایک خواب ہی رہ گئی ہے۔ یہ ہم آہنگی معاشی اور سیاسی استحکام کیلئے ناگزیر ہے اور صورتحال میں تبدیلی نہ آنے کی وجہ سے یہ حالات شاید ایسے ہی رہیں۔ نئے مسائل اہم ترین سیاسی تفریق ہے۔ اگرچہ سیاسی تفریق پہلے بھی موجود تھی مگر جو حالات اب ہوچکے ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس تفریق کا یہ عالم ہے کہ لوگ‘ معاشرہ حتیٰ کہ گھروں میں بھی لوگوں نے سخت گیر راہ اپنا لی ہے۔ اس ماحول میں نہ ہی ایک دوسرے کی بات سننے کی گنجائش ہے اور نہ ہی معاملات کو حل کرنے یا سُلجھانے کا کوئی امکان۔
 یہ بات ٹھیک ہے کہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی عدم برداشت کی حامی سیاسی قوتوں کی وجہ سے جمہوریت مسائل کا شکار ہے لیکن یہ صرف اس بات کی گواہی ہے کہ عوامی حمایت کے حصول کیلئے ایک رہنما بڑھتے عدم برداشت اور سیاست میں حدود و قیود کو ایک طرف رکھتے ہوئے کس طرح جمہوری روایات کیلئے کمزور عزائم رکھتا ہے۔ جمہوریت کی کامیابی کیلئے چند اجزأ کی اشد ضرورت ہوتی ہے جیسے رواداری‘ اتفاق رائے اور دوسروں کی آرأ اور ان کے خیالات کو اہمیت دینا لیکن جب ان سب پر پابندی لگادی جائے تو درحقیقت یہ جمہوریت کے غیر فعال ہونے کا اعلان ہے اور آج پاکستان کو اسی خطرے کا سامنا ہے‘ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی بات چیت اور ان کی جانب سے پیش کئے جانے والے بیانیے بتاتے ہیں کہ کس تیزی سے ہماری سیاست سے رواداری اور تحمل و برداشت کا خاتمہ ہورہا ہے۔
 نوے کی دہائی میں سیاسی ناموں سے پکارا جانا‘ کردار کشی‘ ملک سے باغی قرار دینا اور سیاسی رہنماؤں کو سیکیورٹی رسک قرار دینا عام تھا مگر ان تمام تر خرابیوں کے باوجود یہ کہنا مشکل نہیں کہ آج کا سیاسی ماحول ماضی  کے مقابلے میں کہیں زیادہ خراب ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں اس سیاسی تفریق کو بڑھانے میں سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا ہے اور ہمیں ایک بار پھر یہ کہنا پڑے گا کہ ایسا تقریباً پوری دنیا میں ہی ہورہا ہے۔
”ڈیجیٹل پلیٹ فارمز“ میں شناخت کو چھپانے سے یہ فائدہ ضرور مل جاتا ہے کہ پارٹی سے وابستہ افراد ایسے تمام افراد سے لاتعلقی کا اعلان کرسکتے ہیں اور انہیں کسی بھی قسم کا خوف نہیں رہتا اور اسی وجہ سے ان پلیٹ فارمز پر غلط معلومات کا ایک طوفان رہتا ہے۔ معصوم ذہنوں پر اثر انداز ہونے کے علاؤہ سوشل میڈیا کی حیران کن طاقت حقائق سے ماورا ماحول میں قوم پرستی کے جذبات کو بڑھاوا دیتے ہوئے خوف کو جنم دیتی ہے۔ تفریق کو مزید بڑھانے کے لئے اِن ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے دوسروں کو غدار قرار دینے کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن اس عمل کے نہ صرف خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں بلکہ یہ سیاسی نظام کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔اس حوالے سے سیاسی قیادت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ روا داری تحمل اور برداشت کا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے کارکنوں کو یہی طرز عمل اپنانے کی ہدایت کریں تاکہ ماحول میں موجود کشیدگی کو ختم کیا جاسکے۔(بشکریہ ڈان‘ ترجمہ: ابوالحسن امام)