درخت کہانی: لیجر اسٹرویمیا

درخت کسی بھی باغیچے کو بنا‘ یا بگاڑ سکتے ہیں اُور اِن کی کلیدی اہمیت ہوتی ہے۔ کوئی بھی باغ باغیچہ درخت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اس وجہ سے دستیاب جگہ کے مطابق درخت کا انتخاب بہت اہم ہے اور اس بات پر جتنا زور دیا جائے وہ کم ہے۔ اپنے باغیچے‘ صحن یا چھت بالکونی (ٹیرس) میں بڑے گملے میں غلط درخت لگانے کا مطلب مصیبت کو دعوت دینا ہے۔ ہم میں سے اکثرشہریوں کے پاس اتنی جگہ نہیں ہوتی کہ ہم گل موہر‘ جیکیرانڈا‘ انڈین کورل ٹری‘ انڈین لیلیک اور آم جیسے شاندار درخت لگا سکیں تاہم انار‘ امرود‘ املتاس‘ پپیتے‘ بوتل برش اور لیجر اسٹرویمیا جسے عام طور پر کریپ مرٹل کہا جاتا ہے کے کئی رنگوں میں سے کسی ایک رنگ والے چھوٹے درختوں کے لئے جگہ بنائی جاسکتی ہے۔ اگر آپ کے پاس جگہ کی قلت ہے اور آپ کوئی پھول دار درخت لگانا چاہتے ہیں تو ”لیجر اسٹرویمیا“ آپ کے لئے بہترین رہے گا۔ یہ کسی بڑے گملے یا براہ راست زمین میں بھی لگایا جاسکتا ہے۔ یہ گرم موسم کے مہینوں میں گلابی‘ بنفشی‘ جامنی‘ سرخ‘ سفید یا میرون پھولوں سے لد جاتے ہیں۔ ہر سال دسمبر کے آخر میں ان کی کاٹ چھانٹ کرنے سے ان کے حجم کو کنٹرول میں رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ انہیں موسمِ گرما میں سایہ فراہم کرنے کے لئے بھی تیار کیا جاسکتا ہے اور سرما میں جب حرارت کی ضرورت ہوتی ہے تو ہلکے ہونے کی وجہ سے یہ دھوپ کے گزرنے میں رکاوٹ نہیں ڈالتے۔

یہ دھوپ میں بھی پھلتے پھولتے ہیں اور سائے میں بھی۔ یہ درخت ملک بھر میں اگایا جاسکتا ہے‘ یہاں تک کہ مون سون کے خشک دنوں میں بھی اس کے پھول کھلے رہتے ہیں اور فضا کو معطر کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا اکلوتا درخت پھل دار ہو اور کراچی جیسے گرم شہر میں اُگ سکتا ہو تو پھر لیموں‘ پپیتا اور چیکو بہترین انتخاب ہیں۔ لاہور‘ راولپنڈی‘ اسلام آباد اور پشاور میں کینو سے بہتر درخت کوئی نہیں خاص طور پر وہ قسم جس کا درخت چھوٹا ہوتا ہے اور کسی بڑے گملے میں لگ سکتا ہے اور سارا سال سرسبز رہتا ہے۔ بہار کے موسم میں یہ آپ کے گھر کو مہکا کر رکھ دے گا اور اس کے رس دار پھل آپ کی ساری محنت کا صلہ دیں گے۔ یہ پھل اپنے معیار اور خوشبو میں بازار میں ملنے والے پھلوں سے بہت زیادہ معیاری ہوں گے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کسی چھوٹی جگہ پر درخت اگانے کے بعد آپ وہاں کچھ اور نہیں اگاسکیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر کینو‘ لیموں‘ چکوترے یا کسی اورسیٹرس پھل کی ہی مثال لیجیے۔ ان کے درختوں کی کاٹ چھانٹ ایسے کی جائے جس سے درخت اوپر کی جانب بڑھنے کی بجائے باہر کی جانب بڑھے۔

اس کے علاوہ درخت کے درمیانی حصے کو صاف رکھنے سے ہوا کا گزر بہتر ہوگا جس سے کسی بیماری کے امکانات بھی کم ہوجائیں گے۔ یوں ایک گھنے سائے والا درخت تیار ہوجائے گا۔ اس درخت کی شاخیں‘ ٹوکریاں اور اس جیسی دیگر چیزیں لٹکانے کے لیے بہترین ہوں گی۔ اس ٹھنڈے سائے میں پٹونیا‘ فوچیا‘ فرن‘ آرچڈ اور کلوروفیٹم مناسب سائز کے گملوں میں اگائے جاسکتے ہیں۔ ضرورت کے مطابق پانی دینے سے یہ پودے کم سایہ دار جگہوں میں اگنے والے پودوں کی نسبت زیادہ عرصے تک برقرار رہیں گے۔ اس کے علاؤہ یہ بہت خوبصورت بھی نظر آئیں گے۔ یہ بات درست ہے کہ اکثر درخت اپنے تنے کے اردگرد حتیٰ کہ اپنے سائے تک کے نیچے گھاس کو اگنے نہیں دیتے لیکن اس مسئلے کے حل کے لئے اس خالی زمین پر گملے رکھے جاسکتے ہیں۔ مستقل گھاس کے برعکس یہ عارضی گملے اپنی مرضی کے مطابق جب چاہیں تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔درخت خریدنے اور لگانے سے قبل چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ایک پختہ درخت بننے پر اس کی اونچائی اور پھیلاؤ کیا ہوگا اور اس کی جڑیں اندازاً کتنی گہری ہوں گی اور کتنی دُور تک پھیلیں گی۔ چھوٹے درخت گھر اور چار دیواری سے کم از کم دو سے تین میٹر دُور لگائیں کیونکہ ان کی جڑیں گھر کی بنیادوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ پانی کے زیرِ زمین ٹینک‘ پانی اور سیوریج کی لائنوں‘ زیرِ زمین گزرنے والی بجلی کی تاروں وغیرہ کی جگہ کا خیال رکھیں۔ کسی ایسی جگہ درخت نہ لگائیں جہاں اس کی جڑیں ان چیزوں کو متاثر کریں۔ اگر درخت کے اونچا ہونے کا ذرا بھی امکان ہو تو اسے بجلی کی تاروں کے نیچے نہ لگائیں تاکہ وہ بعد میں پریشانی کا سبب نہ بنے۔ اگر گملے میں اُگنے والا کوئی درخت بہت بڑا ہو جائے تو اسے کسی ایسے شخص کے حوالے کردیں جس کے پاس اسے لگانے کے لئے مناسب جگہ ہو اور ماحول کی بہتری کے لئے کام کرنے پر خود کو شاباش دینے کے لئے ایک اور درخت لگائیے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: زہرا ناصر۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)