سری لنکا بحران

ایسٹر بم دھماکے کے بعد سری لنکا میں سب سے سنگین بدامنی دیکھی گئی۔ کولمبو میں ایک ماہ سے جاری احتجاج میں صدر گوتابایا راجپکشے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اب جبکہ حکومت نہیں رہی لیکن پُرتشدد واقعات جاری ہیں اور حکومت کے حامی و مخالفین ایک دوسرے پر حملے کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر راجپکشے کے حامیوں کی ویڈیوز اور تصاویر گردش کر رہی ہیں۔ جزیرے کے جنوب میں سنہالہ اکثریتی علاقے میں ہونے والے تشدد میں آٹھ افراد ہلاک ہو گئے جن میں سے زیادہ تر صدر کی پارٹی سے وابستہ افراد ہے ایک سو سے زائد املاک کو بھی نذر آتش کیا گیا ہے۔
 صدر کے بھائی وزیر اعظم مہندا راجپکشے نے بعد میں استعفیٰ دے دیا اور تمل اکثریت والے شمال مشرق میں بحریہ کے کیمپ میں فرار ہو گئے۔ اب ان کی جگہ ایک اور پرانا چہرہ یعنی یونائیٹڈ نیشنل پارٹی(یو این پی) رانیل وکرما سنگھے نے لے لی ہے جنہوں نے گزشتہ پانچ مواقع سے کم پر پریمئرشپ پر قبضہ کیا ہے لیکن انہوں نے کبھی مکمل مدت نہیں دیکھی۔ وکرما سنگھے پر خود الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے سابقہ دور میں کئی دہائیوں پرانے نسلی تنازعے سے نمٹنے کے لئے بدعنوانی اور مواقع سے آنکھیں بند کر لیں۔ راجپکشے کا حیرت انگیز زوال ایک معاشی بحران کی وجہ سے پیدا ہوا جو کئی دہائیوں کی مالی بدانتظامی کی وجہ سے پیدا ہوا اور ان کی عوامی پالیسیوں کی وجہ سے مزید بڑھ گیا۔
 ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ سری لنکا کے سب سے نمایاں خاندان نے پارلیمانی انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی اور دو تہائی اکثریت سے راج کیا۔ صدر گوتابایا جنہوں نے دوہزار اُنیس میں بھی نمایاں اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی‘ نے اپنے اختیارات کو مستحکم کیا اور سنہالہ آبادی کی تقریبات کے درمیان ریاستی ڈھانچے اور ملک کی معیشت میں خاندان کی پوزیشن کو مستحکم کیا۔ ان کے بھائی اور سابق صدر مہندا نے پریمئرشپ جیت لی اور خاندان کے کئی دیگر افراد نے اہم وزارتوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ یو این پی کو ایک نشست پر محدود کردیا گیا تھا۔ راجپکشے کی فتح یقینی تھی۔
 سنہالہ ووٹوں کی بڑی اکثریت ان کی پارٹی جزیرے پر خوشحالی‘ رونق اور سنہالہ بودھ بالادستی کے تحفظ کا وعدہ کرتی ہے۔ سال دوہزاراُنیس اور دوہزاربیس میں انتخابی فتوحات کے بعد راجپکشے نے ریاست پر اپنی گرفت مضبوط کی اور ایسے اقدامات کئے جن سے تاملوں اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا‘ تامل علاقوں کی بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی‘ تامل صحافیوں اور این جی اوز کو ہراساں کرنے سے لے کر مسلم کوویڈ متاثرین کی زبردستی تدفین جیسے معاملات تک‘ راجپکشے حکومت غیر سنہالہ برادریوں کو دوسرے درجے کا شہری ہونے کا احساس دلایا تاہم سنہالہ اکثریتی جنوب میں ہونے والے مظاہرے انسانی حقوق کے دیرینہ خدشات اور جوابدہی کے مطالبات کی وجہ سے نہیں ہوئے بلکہ حکومت کی معاشی پالیسیوں نے ان پر جو معاشی مشکلات پیدا کیں۔ 
راجپکشے وعدوں کے برعکس غربت اور بدحالی میں اضافہ کیا۔ سنہالہ بودھی بالادستی کے مسلسل تحفظ اور فروغ کا مطلب یہ ہے کہ پے در پے حکومتوں نے مالیاتی پالیسی کے فیصلے کیے جو ملک کی معیشت اور اس کے تمام شہریوں کی خوشحالی کے بہترین مفاد میں ہونے کی بجائے سنہالہ نسل پرستی کو برقرار رکھنے کیلئے تھے۔ مظاہرین پر حالیہ حملے اور اس کے بعد ہونے والے ردعمل کے بعد ریاست نے ایسے ہتھکنڈے استعمال کئے جن میں فوج اور پولیس کو غیر معمولی اختیارات دینے والے ہنگامی ضوابط بھی شامل ہیں‘ جزیرے پر آن اینڈ آف کرفیو کی وجہ سے خالی سڑکوں کے درمیان فوجی گاڑیاں کولمبو میں گشت کرتی دیکھی جا سکتی ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ماریو ارولتھاس۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)