وزیر اعظم شہباز شریف کا موجودہ سیاسی بیانیہ ’معیشت‘ کے بارے میں ہے۔ سابقہ حکومت نے پانچ ہزار ارب روپے کا بجٹ خسارہ جبکہ 50 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ چھوڑا ہے جو پاکستان کی 75سالہ اقتصادی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ اگلے چھ ہفتوں میں ہمیں قرضوں کی ادائیگی کے لئے چار ارب ڈالر اور اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے مساوی رقم درکار ہے۔ سعودی عرب ’آئی ایم ایف‘ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات ’آئی ایم ایف‘ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک ’آئی ایم ایف‘ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ ’آئی ایم ایف‘ واشنگٹن کی طرف دیکھ رہا ہے اور جب ’آئی ایم ایف‘ واشنگٹن سے اشارے کا منتظر ہے۔ خطرے کی بات یہ ہے اگلے بارہ ماہ میں پاکستان کو درکار مجموعی بیرونی فنانسنگ (قرضہ جات) کی ضرورت 32ارب ڈالر ہے۔
مثال موجود ہے کہ سری لنکا نے اپنی بیرونی قرضوں کی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کی جس کی وجہ سے بارہ اپریل کو دیوالیہ ہو گیا اور سری لنکا کا روپیہ تاریخی پستی کا شکار ہو گیا ہے جہاں خوراک کی قلت‘ ڈیزل کی قلت اور زندگی بچانے والی اَدویات کی کمی ہے۔ کسی بھی ملک کے مسلسل سیاسی عدم استحکام کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ سیاسی تنازعہ معاشی سرگرمیوں پر مختصر اور طویل مدتی دونوں طرح کے اثرات مرتب کرتا ہے۔ سیاسی تنازعہ کی سنگین قسط میں سپلائی سائیڈ اور ڈیمانڈ سائیڈ دونوں میں سکڑاؤ آتا ہے جو دو سال تک جاری رہتا ہے۔ کھپت کم ہو جاتی ہے اِسی طرح ’خدمات‘ اور پیداواری (مینوفیکچرنگ) سرگرمی کا حجم بھی کم ہوتا ہے۔
’جی ڈی پی‘ سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں ایک فیصد گرا سکتی ہے یعنی پاکستان کو ’تیس ارب ڈالر‘ کا ممکنہ نقصان متوقع ہے۔ عام انتخابات پاکستان کے مسائل کا حل نہیں کیونکہ ’آئی ایم ایف‘ عبوری حکومت سے نمٹ نہیں سکے گا اور ’آئی ایم ایف‘ کے بغیر ہم براہ راست ایک خطرے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایک ایسا ’خطرہ‘ جس کے بعد پٹرول‘ ڈیزل‘ بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ اور روپے کی قدر میں غیرمعمولی کمی آئے گی اور اس کے نتیجے میں سماجی مشکل پیدا ہوسکتی ہے جو اس سے بھی مشکل حالت ہے۔
پاکستان کو فیصلہ کرنا ہے کہ اِسے کیا چاہئے؟ کیا پاکستان کو پہلے معاشی خود مختاری اور ڈیفالٹ سے بچنا ہے یا پھر پاکستان کو پہلے عام اِنتخابات چاہیئں؟ پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے اِس کے پاس اب بھی معیشت کو سدھارنے کا وقت ہے۔ سیاسی عدم استحکام کو سب سے پہلے ختم کیا جانا چاہئے جس کے بعد ڈیزل پر سبسڈی میں کمی کی جائے‘ آئی ایم ایف پروگرام بحال کیا جائے‘ پائیدار قرضوں کا منصوبہ تیار کیا جائے‘ اداروں میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات اور نجکاری کی جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان مالیاتی ہنگامی حالات (مالی ایمرجنسی) کے دور سے گزر رہا ہے ایک انتہائی ”سنگین‘ غیر متوقع اور خطرناک صورتحال“ جس کیلئے فوری کاروائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے اب یہ ہماری سیاسی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ اس طرح اس مشکل حالات میں ایسی پالیسی اپناتے ہیں کہ جس سے مسائل حل ہوں اور پائیدار ترقی کی بنیاد پڑ جائے حزب اختلاف اور حکومت دونوں یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قومی اہمیت کے معاملات پر سیاست کی بجائے ہم آہنگی اور مفاہمت کا مظاہرہ کرے یہی وقت کی ضرورت ہے اور حالات کا تقاضہ ہے۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)