اجتماعی اُمید پرستی 

جس طرح ہم پاکستان میں تبدیلی کا تصور کرتے ہیں وہ کسی حد تک تصوراتی یعنی کہانیوں‘ ناولوں اور فلموں سے متاثر ہے جہاں کوئی مافوق الفطرت کردار جیسا کہ ’بیٹ مین‘ آتا ہے اور بدعنوان‘ افراتفری سے بھرے شہروں سے برائی کا خاتمہ کرتا چلا جاتا ہے۔ پاکستان کی اکثریت کو ”اجتماعی امید پرستی“ نے بے حس بنا دیا ہے جس کی وجہ سے بہت سی ایسی خرابیاں نظر بھی نہیں آ رہی جس کے لئے عوام خود بھی ذمہ دار ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ بحیثیت قوم سیاست کو ایک ”سائنسی علم“ کے طور پر دیکھا جائے۔ ہم اس تکنیکی مساوات پر یقین نہیں رکھتے جو حقائق‘ اعداد و شمار اور حوالہ جات کے ساتھ ہمارے معاشرے کے اصل اور ٹھوس مسئلے کی شناخت کر سکتی ہے چونکہ ہم سیاست کے بارے میں نقطہ نظر رکھتے ہوئے غیر سائنسی ہوتے ہیں‘ اس لئے ہم صرف اپنے مسائل کی تجریدی انداز میں شناخت کر سکتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بدعنوانی ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے۔ دیگر کا خیال ہے کہ انتہاپسندی‘ بنیادی ڈھانچے کی کمی‘ ووٹنگ کے حقوق وغیرہ پاکستان میں ہنگامہ آرائی کی بنیادی وجہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ”اعلیٰ اخلاقیات“ رکھنے والے سیاسی قائدین جادوئی طور پر ہم سب کو بدحالی اور مصائب سے بچا سکتے ہیں۔ کوئی بھی معاشرہ پیچیدہ سماجی اور معاشی تعلقات‘ ثقافتوں‘ حکایات اور تاریخی پس منظر کے حامل لاتعداد افراد کی اجتماعی تشکیل ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمیں اس مسئلے کا جواب دینے کی ضرورت نہیں بلکہ پہلے صحیح سوالات پوچھنے کی ضرورت ہے۔ کہ آخر ایک معاشرہ کیسے تشکیل پاتا ہے؟ کوئی بھی معاشرہ مصنوعی طور پر تشکیل نہیں پاتا بلکہ تاریخی ارتقا‘ بڑے سانحات اور باہمی مفادات کا حاصل و نتیجہ ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے کثیر الثقافتی معاشرے میں ہمیں یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک ہزار سال کا شعور اور بہت سی ثقافتوں کی ایک جیسی جڑیں ہیں۔یہ ایک گلدستہ ہے جس میں ہر رنگ و خوشبو کو لئے انگنت پھول موجود ہیں، ایسے ثقافت کے فوائد اور مزے بھی ہیں تاہم ساتھ مسائل بھی پیدا ہونا فطری ہے۔  پاکستان میں پا ئے جانیوالے مسائل کوئی ایک فرد حل نہیں کر سکتا بلکہ اِسے حل کرنے کے لئے ہر خاص و عام کو متوجہ ہونا پڑے گا کیونکہ یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے اور اسے پاکستان کے عوام ہی اجتماعی طور پر حل کر سکتے ہیں۔ ہمیں پاکستان میں طبقاتی جنگ کو سمجھنے کیلئے عالم فاضل ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنی ذات اور انا کے ایک فیصد حصے کی قربانی دے کر یہ ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔  کسی بھی معاشرے میں تبدیلی یا آگے بڑھنے کا راستہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب پورا معاشرہ بلکہ ہر فرد اس میں اپنا حصہ ڈالے اور اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کرے اگر ہر فرد معاشرے میں بہتری لانے کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالے گا تو یقینا اس سے معاشرے میں باتوں اور مذاکروں کا سلسلہ تو چل نکلے گا تاہم معاشرے میں بہتری یا حقیقی تبدیلی کبھی ممکن نہیں ہو سکے گی ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ معاشرے سے بدعنوانی ختم ہو گلی محلے صاف ستھرے ہوں تاہم خود ہم اس سلسلے میں عملی طور پر کتنی دلچسپی لیتے ہیں اور کیا اقدامات کرتے ہیں یہ اصل صورت حال کو سامنے لانے کا آئینہ ہے جس میں ہر کوئی اپنے آپ کو دیکھ سکتا ہے۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: وقاص عالم انگاریہ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)