تصویر کا دوسرا رخ

پاکستان کی معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے ایسے میں وزیراعظم شہباز شریف نے قیمتوں میں استحکام لانے کے لئے چینی کی برآمدات پر پابندی کا اچھا فیصلہ کیا۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جو گنے کی پیداوار کرتا ہے اور اسے گھریلو کھپت کو پورا کرنے کے قابل ہونا چاہئے۔ معیشت کو واپس آنے کے لئے مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں جیسا کہ مارگریٹ تھیچر نے ایک بار برطانیہ کی معیشت کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا ”دوا کڑوی ہے لیکن مریض کو جینے کیلئے اس کی ضرورت ہوتی ہے؟“ اس مرحلے پر وزیر اعظم کو چینی آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) پر پاکستان کی واجب الادا رقم کے بارے میں فکرمند ہونا چاہئے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں پر کام کرنے والی چینی کمپنیوں نے گزشتہ ہفتے کے اوائل میں وزیر منصوبہ بندی سے ملاقات کی جہاں انہوں نے پاکستان کی تاخیر سے ادائیگیوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی کے وعدوں کو بھی پورا کرنا ہے اور یہ اشد ضروری ہے۔ اب تک پاکستان کا کل بیرونی قرضہ جی ڈی پی کا تقریبا پنتیس فیصد ہے۔ لائحہ عمل سمارٹ ڈیٹ ری شیڈولنگ اور آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کی بحالی ہونا چاہئے۔ معیشت کے مستحکم ہونے کے بعد پاکستان کو طویل مدتی ڈھانچہ جاتی اصلاحاتی لائحہ عمل (اقدامات) وضع کرنے کی ضرورت ہے جو خود کفالت کو یقینی بنائیں اور ان کے ذریعے انسانی وسائل کی ترقی جیسا جامع ہدف حاصل ہو سکے۔ افسوس کی بات یہ ہے

کہ پاکستان میں صرف معیشت ہی دباؤ سے دوچار نہیں بلکہ پاکستان کے سیاسی نظام کی کمزوری کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ اگر پاکستان نے اپنے مسائل کی اصل وجہ حل نہ کی تو وہ کبھی ترقی نہیں کر سکے گا۔ آئینی اصلاحات کو اس کے ایجنڈے میں سب سے پہلے ہونا چاہئے لیکن اگر ایک ایسے نظام پر اکتفا کیا گیا جس میں جا بجا بحرانوں کا خدشہ رہتا ہے تو ایسے نظام سے پاکستان ہمیشہ جدید دنیا سے پیچھے رہے گا۔ اس وقت سابق وزیر اعظم عمران خان کی مقبولیت میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے تاہم انہیں عام انتخابات کے انعقاد تک اس مقبولت کو برقرار رکھنا ہے جو کہ آسان نہیں ہوگا۔ اس بات کو اجاگر کرنا بھی ضروری ہے کہ عمران خان نے اپنے تین سال کا بیشتر حصہ صحت کی دیکھ بھال کے اقدامات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے گزارا‘ جس کا نتیجہ ہے کہ عمران خان کو آج عوامی پذیرائی مل رہی ہے۔پاکستان میں سیاسی و معاشی استحکام ایجنڈے میں سرفہرست ہونے چاہئیں اگرچہ تنازعہ اور افراتفری منظرنامے کو دلچسپ دکھانے کیلئے بنائے جاتے ہیں۔ تاہم پاکستان کسی سیاسی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے مشکل حالات میں بھی پاکستان نے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور ہر طرح کی معاشی مشکلات اور پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے بعد ترقی کا سفر ایک بار پھر جاری رکھنے کا عملی مظاہرہ کئی مرتبہ کیا ہے۔ اس وقت بھی ایسے ہی جذبے کی ضرورت ہے کہ مشکل حالات سے  نکلنے کیلئے اگر مشکل فیصلے کرنے پڑے تو اس میں پوری قوم یکجہتی کا مظاہرہ کرے اور اب یہ سیاسی قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اس حوالے سے عملی طور پر اتفاق اور اتحاد کا مظاہرہ کریں یقینا عوام اس حوالے سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں۔