اگست دوہزاراکیس میں پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں نے اُن لاکھوں بچوں کیلئے اپنے دروازے دوبارہ کھول دیئے جو تقریبا اٹھارہ ماہ ’کورونا وبا‘ کے باعث نصابی سرگرمیوں سے الگ رہے تھے لیکن سکولوں کو واپسی کا جوش و خروش یکساں (سنگل) قومی (نیشنل) نصاب تعلیم کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔ ملک بھر کیلئے ایک جیسا یعنی یکساں نصاب تعلیم متعارف تو کروایا گیا لیکن اِسے قومی پالیسی کے طور پر اُجاگر نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے عوام کی معلومات کم ہیں اور اُن کا ردعمل جاننے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی ہے اور یہ دونوں باتیں اپنی جگہ اہم ہیں۔ یکساں نصاب تعلیم کے نفاذ کے ارد گرد الجھن پھیلی ہوئی ہے۔ اگر حکومت یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے پر آمادہ ہے اور اسے ضروری سمجھتی ہے تو پھر اِس اقدام کو کسی ایک طبقے کی مرضی پر چھوڑنا کس طرح سودمند ہو سکتا ہے۔یکساں نصاب تعلیم کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ منتخب شدہ اور منظور شدہ کتابوں کا ہے۔ تعلیمی نصاب مرتب کرتے وقت نجی سکولوں سے ”اِن پٹ“ مانگا گیا تھا جو دیدیا گیا لیکن حکومتی اداروں جیسا کہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے اس سلسلے میں خاطرخواہ تعاون نہیں کیا اور اپنے نصاب تعلیم کو مسلط کرنے کی کوشش کی۔ اِس کوشش کے نتیجے میں جو تعلیمی نصاب تخلیق ہوا اُس کا معیار خاطرخواہ بلند نہیں جبکہ ڈیجیٹل خواندگی محض تعریفوں پر مشتمل تھی جس میں ڈیجیٹل شہری کو فیس بک‘ ٹوئٹر اور واٹس ایپ استعمال کرنے والے کے طور پر شامل کیا گیا۔ ہنر مندی کی ترقی صفر ہے جو کم از کم اعلیٰ تعلیم کی سطح پر مزید ترقی کیلئے کچھ بنیاد پیش کر سکتی تھی‘
مناسب ترجموں یا زبان کی تعمیر پر کم توجہ دی گئی۔ دو دسمبر دوہزاراکیس کو وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کی جانب سے درسی کتابوں کے ناشروں‘ نجی سکولوں کے آپریٹرز‘ افراد‘ کمپنیوں‘ ماہرین تعلیم‘ غیر سرکاری و غیرمنافع بخش تنظیموں سے مشاورت کی گئی۔ برٹش کونسل کی جانب سے نصاب کی ترقی‘ نصابی کتب کی ترقی اور تشخیص کے بارے میں شعبہ جاتی ماہرین سے بھی تجاویز طلب کی گئیں لیکن اس سے یکساں نصاب تعلیم مرتب کرنے والوں کو الگ رکھا گیا۔ اس مرحلے پر پرنٹرز اور پبلشرز کے ساتھ بھی مشاورت کی گئی۔ ذہن نشین رہے کہ ناشر اور پرنٹر میں فرق ہوتا ہے۔ ایک ناشر کتابیں تیار کرتا ہے جبکہ پرنٹر تکنیکی معاونت کرتا ہے اور اُن کتابوں کو شائع کرتا ہے۔ پاکستان میں مجموعی طور پر نصابی کتابیں سنگاپور اور ملائیشیا سے آتی ہیں۔ اس کے بعد ان کتابوں کو یا تو غیر ملکی کتابوں کے طور پر فروخت کیا جاتا تھا یا مقامی طباعت کے ذریعے تیار کر کے بڑے پیمانے پر فروخت کیا جاتا ہے نصاب پر مبنی کتابیں تیار کرنے والے ناشر مٹھی بھر ہیں جن میں معروف ادارہ ”آکسفورڈ یونیورسٹی پریس“ ہے۔ تین دسمبر دوہزاراکیس کو ایک اور ہدایت نامہ جاری کیا گیا کہ یکساں نصاب تعلیم بنیادی ہوگا لیکن اگر سکول اپنی پسند کی کسی بھی کتاب کا اضافہ کرنا چاہیں تو وہ کر سکیں گے۔ کتابیں راتوں رات نہیں بنائی جاتیں۔ ایک کتاب کیلئے بہت سوچ اور محتاط غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ تعلیمی کتابیں ہوتی ہیں! پرائمری سکول کے بچوں کیلئے نئی کتابیں کہاں سے آئیں گی یہ دیکھتے ہوئے کہ پچھلی تمام کتابیں کس طرح ختم کردی گئی تھیں؟ کسی بھی مغربی ملک کی طرز پر یکساں نصاب لاگو کرنے سے قبل تعلیمی اداروں اور زیرتعلیم بچوں کی صحت پر توجہ دینا ہوگی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ نصاب تعلیم یکساں کرنے سے قبل تعلیمی اداروں میں بچوں کی مار پیٹ کا خاتمہ اور بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانی ہوگی۔