پاکستان اگر چہ بڑی جماعتوں کے درمیان موجود نفرت کا ماضی میں بھی مشاہدہ کر چکا ہے تاہم اِس کی موجودہ تلخیاں زیادہ محسوس ہو رہی ہیں اور یہ انتہا پسندانہ انتخاب جمہوری سیاست کیلئے اچھا نہیں ہے۔ جمہوریت مختلف امور پر بات چیت اور بحث چاہتی ہے۔ ہم یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں کیا کر رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے جس لب و لہجے کا استعمال کرتے ہیں اُس سے معاشرے میں پائی جانے والی برداشت ختم ہو رہی ہے۔ بجائے اس کے کہ فاصلے کم ہوں اور سیاسی جماعتیں آپس میں گفت و شنید کی طرف آئیں اختلافات مزید بڑھتے جارہے ہیں اور خطرہ اِس بات کا ہے کہ اختلاف رائے رکھنے والے سیاسی جماعتوں کے کارکن ایک دوسرے پر حملہ آور نہ ہوں اُور یہ خطرہ اِس لئے محسوس ہو رہا ہے۔
تصور کریں کہ اگر اس ماحول میں عام انتخابات ہوتے ہیں تو ملک کے کئی حصوں میں کشیدگی کا خدشہ ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایمز) کے استعمال کے حوالے سے بھی اختلافات پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ووٹنگ کا عمل کم خرچ اور نتائج شفاف ہونا ممکن ہے۔ اِسی طرح عام انتخابات کے بعد کے منظرنامے پر بھی نظریں ہونی چاہیئں کہ بعداز انتخابات ممکنہ قومی منظرنامہ کیا ہوگا۔ کیا موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی ایک سیاسی جماعت ایسی ہو گی جو اپنی انتخابی شکست کھلے دل سے تسلیم کر لے؟ آئین کی موجودگی میں تمام جماعتوں کو اس کے دائرے میں رہنے کی ضرورت ہے۔
پرسکون اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نگرانی میں ہونے والے منصفانہ عام انتخابات کے نتیجے کو قبول کرنے کی آمادگی کے بغیر حالات مزید مشکل ہو جائیں گے۔ کوئی نہیں چاہتا کہ سیاسی اختلافات کی بنا ء پر جھڑپیں ہوں اور تشدد پھیلے لیکن برداشت کے فروغ کیلئے بھی خاطرخواہ کردار ادا کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی۔ تمام جماعتوں اور تمام سیاسی رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ سیاست میں برداشت کو یقینی بنائیں۔ آخر پاکستان کی سلامتی اہم ہے اور عوام کی سلامتی اس سلسلے میں سرفہرست ترجیح ہونی چاہئے۔
وقت آگیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر بات چیت ہو تاکہ سیاسی معاملات اور قومی امور کس طرح آگے بڑھائے جائیں اِس سلسلے میں غوروخوض ہو سکے۔ سیاسی بیان بازی میں ہر لفظ تول کر بولنا چاہئے اور اگر ایسا نہیں ہوگا تو شکوہ جواب شکوہ مسائل بڑھتے چلے جائیں گے۔ سیاسی جماعتیں اپنی عوامی مقبولیت ثابت کرنے کیلئے اجتماعات کی راہ پر چل نکلی ہیں جبکہ اِن سیاسی اجتماعات کی وجہ سے کسی بھی شہر کے معمولات زندگی بُری طرح متاثر ہوتے ہیں۔
شاہرایں بند ہونے سے عمومی آمدورفت کے علاوہ مریضوں کو مشکلات درپیش رہتی ہیں تو ایسی صورت میں ایک سے بڑھ کر ایک ریلی کرنے سے بہتر ہے کہ سیاسی بات چیت کی راہ اختیار کی جائے کیونکہ سیاسی سرخروی کا کوئی دوسرا متبادل‘ قابل عمل اور آسان حل نہیں ہے اور آج کل تو سوشل میڈیا اور دیگر اسے ذرائع موجودہیں جن کے ذریعے سیاستدان عوام سے زیادہ آسانی کے ساتھ رابطہ کر سکتے ہیں اور ان تک اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: کاملہ حیات۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)