پاکستان ایک اور ”توانائی بحران“ کا سامنا کر رہا ہے‘ اس موقع پر یہ پوچھنا مناسب ہے کہ تاریخ جو کہ اپنے آپ کو دہراتی ہے تو اسے بار بار دہرانے سے بچنے کیلئے کیا ہونا چاہئے۔ اگر مناسب ہو تو حالیہ کموڈٹی سپر سائیکل‘ جو یوکرین میں جنگ کی وجہ سے مزید بڑھ گیا ہے اور دنیا بھر میں زیادہ ترقی یافتہ ممالک کے ماحولیاتی نظام کی بھی آزمائش کر رہا ہے تاہم ہماری ادارہ جاتی خامیاں (شعبہ جاتی فالٹ لائنز) ساختی نوعیت کی ہیں اور صرف بیرونی عوامل پر الزام نہیں لگایا جاسکتا لہٰذا اس سے پہلے اصل مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے توانائی کے شعبے کو آزاد بنایا جائے اور اسے نجی یا عوامی ریگولیٹڈ کمپنیوں کے ذریعہ خود مختاری سے چلایا جائے۔ یہ سوچ اور نقطہ نظر میں ایک مثالی تبدیلی ہوگی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عام شہریوں کو لوٹنے کی اجازت دیدی جائے اور نجی کمپنیاں اپنی مرضی (من مانی) کرنے لگیں جیسا کہ عموماً ایسی صورتحال میں دیکھا جاتا ہے۔
ریاست کو بجلی و گیس جیسی ضروری خدمات کی فراہمی اور قیمتوں کے تعین کا اختیار ہونا چاہئے اس کا مطلب ہے مسابقتی صارفین کی قیمتوں کے نفاذ کیلئے لائسنس یافتگان کی نگرانی کے نظام کو مضبوط بنانے کے ساتھ مستقل پالیسی سازی تک اپنے کردار کو محدود کرنا ہے جیسا کہ ٹیلی کام سیکٹر میں لبرلائزیشن کے بعد دیکھا گیا۔ توانائی کے شعبے کے لئے عملی طور پر جو کچھ ظاہر ہوتا ہے اس کی مثال چار تجاویز سے ملتی ہے۔ ایک یہ کہ پیٹرولیم کموڈٹی ایکسچینج میچنگ سپلائی اور ڈیمانڈ کا نظام وضع ہونا چاہئے۔ پاکستان سٹیٹ آئل نے اِس سلسلے میں مؤثر طریقے سے کام کیا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات ہوں یا بجلی‘ کسی سیاسی حکومت کے لئے توانائی کی مختلف مصنوعات پر بالواسطہ ٹیکسوں اور لیویز کو کم کرنے کے لئے پالیسی ٹول کٹ ہمیشہ برقرار رکھی جانی چاہئے یا اِسے سماجی بہبود کے پروگراموں (جیسا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام یا احساس پروگرام) یا برآمدی بنیادوں پر چلنے والے صنعتی شعبے کے ذریعے مستحق آبادی کی مالی مدد کرنی چاہئے۔
اگر مارکیٹ کو غیرمنضبط کر دیا جاتا ہے تو مقامی آئل ریفائنریوں کو خصوصی مراعات یا سبسڈی دینے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی اور توانائی کے شعبے میں کی ترقی (اپ گریڈیشن) اور اِسے جدید بنانے میں سرمایہ کاری کی جاسکے گی۔ دوسری اہم بات تمام بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا انتظام نجی شعبے کے حوالے کرنا ہے۔ اِس سلسلے میں نجکاری کمیشن کے زیر انتظام شفاف عمل کے تحت اٹھارہویں آئینی ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کی روح کے مطابق صوبوں کے ساتھ زیادہ مساوی مالی اور خطرے کے اشتراک کے انتظام کے ساتھ کام ہونا چاہئے۔ نجی رعایت یافتگان کو نیپرا کی طرف سے ٹیرف نظام کے تحت ریگولیٹ اور حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ مجموعی تکنیکی اور تجارتی نقصانات کم کرنے اور ان ’ڈی آئی ایس سی اوز‘ میں کسٹمر سروس کو بہتر بنانے میں سرمایہ کاری کی جاسکے۔ تیسرا بجلی کی پیداوار کے تمام نئے منصوبے‘ سوائے پن بجلی (ہائیڈرو) اور جوہری (نیوکلیئر) کے‘ مسابقتی طور پر ٹینڈر کئے جانے چاہئیں اور ان کی بجلی کا کاروبار آنے والے بجلی کے تبادلے (سی ٹی بی سی ایم) پر ہونا چاہئے لہٰذا پالیسی سازوں کو کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہے۔ چوتھا یہ کہ ریاست کو ایل این جی درآمد کرنے اور اِس شعبے میں خریدوفروخت کے کاروبار سے نکلنے اور اِس شعبے میں نجی سرمایہ کاری مدعو کرنی چاہئے۔
وفاقی حکومت کو صرف اپنی بیان کردہ سماجی و اقتصادی پالیسی اور آئینی دفعات کے مطابق مقامی طور پر تیار کردہ قدرتی گیس کی فراہمی کی حد تک محدود رہنا چاہئے۔ بجلی کے پیداواری شعبے (پاور سیکٹر) کے گردشی قرضوں کی غالب وجہ ’بجلی کے تقسیم کار کمپنیاں (ڈی آئی سی او ایس) کے مالی نقصانات نہیں بلکہ ناقابل برداشت اور مسلسل بڑھتی ہوئی بجلی کی قیمت (ان پٹ لاگت) ہے جس کی وجہ 1990ء کی دہائی سے کئے گئے مختلف معاہدے ہیں۔ مہنگی بجلی خرید کر سستے داموں فروخت کرنا کسی بھی صورت قابل عمل اور قابل ترقی طریقہئ کار نہیں ہے۔ اگر توانائی کے شعبے کو ریگولیٹری فریم ورک کے تحت مناسب طور پر آزاد (لبرل) بنایا جائے تو عوام کو سستی اور زیادہ قابل اعتماد بجلی اور گیس مل سکتی ہے۔ کچھ سرکاری کاروباری ادارے اگر ریاست کی طرف سے سابقہ پالیسیوں کا بوجھ برداشت کر رہے ہیں اور یہ صارفین کو سبسڈی دینے کے پابند ہیں تو اِنہیں ایسا کرتے رہنے بھی دیا جا سکتا ہے تاہم اِس سبسڈی کو ملک کی مجموعی خام پیداوار (جی ڈی پی) کا حصہ ہونا چاہئے۔ آخر بات یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانا بھی ضروری ہے۔ توانائی سے متعلق ریاستی پالیسی کی آزادی اپنی جگہ اہم لیکن اِس اہم پالیسی پر کے ساتھ ماحول پر توجہ مرکوز ہونی چاہئے۔
نہ صرف ماحولیاتی بلکہ اقتصادی اور توانائی کی سلامتی بھی پیش نظر رہنی چاہئے۔ پاکستان کو سال 2050ء یا اس کے بعد کے بارے میں ایسی پالیسی وضع کرنی چاہئے جس میں بتدریج ہر سال کاربن کا اخراج کم ہوتا رہے اور اِسے بالآخر ”صفر کاربن اخراج“ تک لیجایا جائے لیکن حکومت کا کام صرف پالیسی بنانا نہیں ہوتا بلکہ جامع لائحہ عمل پر عمل درآمد کرنا بھی ہوتا ہے۔ توانائی کے شعبے کو فوری طور پر ”درست“ کرنے کیلئے کوئی جادوئی حل نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمرانی کے طریقہئ کار اور سوچ میں تبدیلی لائی جائے اور آئندہ تین سے پانچ برس کیلئے لائحہ عمل (روڈ میپ) تیار کیا جائے تاکہ اس شعبے کو قومی معیشت میں مثبت حصہ دار بنایا جا سکے جبکہ پاکستان کے عوام (صارفین) کو سستی اور قابل اعتماد توانائی کی فراہم ممکن بنائی جا سکے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: تابش گوہر۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)