پاکستان کے مختلف حصوں میں گزشتہ دو ماہ کے دوران یومیہ ”آٹھ سے چودہ گھنٹے“ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ ایندھن کی قلت‘ بجلی گھروں کی بندش اور ملک کے مختلف حصوں میں آنے والی گرمی کی شدید لہر جیسے عوامل شامل ہیں اور بنیادی بات طلب و رسد کے درمیان فرق ہے کہ موسم گرما کے آغاز سے ہی ملک میں بجلی کی طلب پوری کرنا مشکل ہو گیا ہے اور اِس شدت وقت کے ساتھ مزید اضافہ متوقع ہے۔ موجودہ ’ہیٹ ویو‘ پر کسی کو حیرت کا اظہار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ سائنس دان گزشتہ کئی دہائیوں سے خبردار کر رہے ہیں اور دنیا کو گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے بارے میں آگاہ بھی کر رہے ہیں لیکن حکومتوں اور عوام کی جانب سے خاطرخواہ دردمندی و توجہ کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا۔
ماضی میں گرمی کی لہر کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں لیکن رواں برس ہیٹ ویو مارچ اور اپریل میں سامنے آئی ہے جو ایک غیرمعمولی بات ہے اور یہ تبدیلی درحقیقت خطرے کی گھنٹی ہے۔ وقت ہے کہ آب و ہوا کی تغیر پذیری اور موسموں کے مزاج کو سمجھا جائے اور اِن کی وجہ سے رونما ہونے والے عجیب و غریب واقعات کیلئے ذہنی طور پر تیار رہا جائے۔ موسمیاتی درجہ حرارت میں اضافے کا اثر گردوپیش پر انتہائی تیزی سے رونما ہوتا ہے اُور اس کی وجہ سے بہت سے ضروریات بشمول بجلی کی طلب میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ گرم موسم کی وجہ سے پانی کے ذخائر‘ زراعت اور بجلی کی طلب پر دباؤ رہتا ہے‘ اور اگر اِس دباؤ کا فوری علاج نہ کیا جائے تو اِس سے قومی پیداواری صلاحیت میں کمی آتی ہے۔
حکومت کے صحت عامہ کی دیکھ بھال پر اُٹھنے والے اخراجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ حالیہ چند برس کے دوران آبادی میں اضافے سے بجلی کی طلب میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جیسے جیسے موسم گرم ہوتا جاتا ہے طلب سے خوراک‘ پانی اور توانائی کا بحران پیدا ہوتا ہے۔ قابل تجدید توانائی میں منتقلی اور بڑھتی ہوئی طلب پورا کرنے کے لئے شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کا جواز اپنی جگہ موجود ہے۔ ’ہیٹ ویو‘ کو سیلاب سے لے کر خشک سالی تک آنے والی تباہیوں کے لئے ابتدائی انتباہ کے طور پر دیکھا جانا چاہئے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ گلوبل وارمنگ ایک وجہ سے وجودی خطرہ ہے۔
یہ کرہئ ارض سے انسانی زندگی کا صفایا کر سکتا ہے اور اس لئے اسے ہنگامی صورتحال سمجھا جانا چاہئے‘ پاکستان میں بجلی کی تقسیم کا نظام خستہ حال ہے اور یہ زیادہ سے زیادہ ستائیس ہزار میگاواٹ بجلی کی ترسیل کرنے کے قابل ہے۔ جب بجلی کی طلب 27 ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہوتی ہے تو بجلی کی پیداواری صلاحیت ہونے کے باوجود بھی ’لوڈ شیڈنگ‘ کرنا پڑتی ہے کیونکہ بجلی کے ترسیلی نظام کی صلاحیت کم ہے۔ عجیب و غریب صورتحال ہے کہ بجلی موجود ہونے باوجود بھی صارفین تک نہیں پہنچائی جا سکتی اُور حکومتی اداروں کو نہ چاہتے ہوئے بھی لوڈ شیڈنگ کرنا پڑتی ہے۔
ہرسال بجلی کی تقسیم کے نظام کو وسعت دی جاتی ہے اور اِس کی تقسیم کی صلاحیت بہتر بنانے باوجود بھی ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ پاکستان میں 40 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے لیکن صرف 27 ہزارمیگاواٹ بجلی صارفین تک پہنچائی جا سکتی ہے۔توانائی کا موجودہ بحران بڑی حد تک درآمدی توانائی کی وجہ سے بھی ہے۔ فرنس آئل‘ ہائی اسپیڈ ڈیزل اور ایل این جی کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک توانائی کے شدید چیلنجوں سے دوچار ہے۔ اس سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر اور معیشت کو میکرو سطح پر دھچکا لگا ہے۔
اس اہم مسئلے کا حل بجلی کی پیداوار کے لئے مقامی وسائل استعمال کرنے میں ہے جس کا جواب تھر کوئلہ ہے‘یہ سستا‘ وافر مقدار میں دستیاب ایندھن کا مقامی ذریعہ ہے اور اِسے فوری استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مقامی کوئلے کی قیمت تقریبا پینسٹھ ڈالر فی ٹن ہے جو درآمدی کوئلے کے مقابلے میں کافی سستا ہے۔ کان کنی کے عمل میں توسیع کیساتھ ہی سال دوہزارچوبیس تک مقامی کوئلے کی قیمت مزید کم ہو کر 30ڈالر فی ٹن یا اِس سے بھی کم ہو جائے گی اُور یہ بات راز نہیں کہ اگر سستی بجلی فراہم کی جائے تو اِس سے صنعتی شعبے کو بہت فائدہ پہنچے گا۔ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ کا انحصار ٹرانسمیشن اور بجلی کی تقسیم کے دوران چوری یا نقصانات پر بھی انحصار کرتا ہے۔
خاص طور پر بجلی کی چوری کا تناسب اور کسی علاقے میں ادا کئے جانے والے بلوں کی شرح کا تعلق لوڈشیڈنگ سے ہوتا ہے‘ تاہم غیر معمولی حالات میں جب بجلی کی فراہمی اور اس کی طلب کے درمیان فرق بہت زیادہ ہو جاتا ہے تو متعلقہ تقسیم کار کمپنیاں بھی اس کمی کو سنبھالنے کیلئے عارضی لوڈ مینجمنٹ اقدامات کر سکتی ہیں‘ ہیٹ ویو اور خراب موسمی حالات دنیا بھر اور پاکستان میں ایک چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف سستی پن بجلی کے وسائل پر گرمی کا بوجھ ہے اور ڈیموں میں پانی کی قلت کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہوئی ہے جس کی وجہ سے ڈیزل اور ایل این جی پر مبنی پاور پلانٹس سے استفادہ کیا جاتا ہے‘ اگر دریاؤں میں پانی کی کمی اُور گرمی کی شدت برقرار رہی تو اِس سے بجلی کی طلب و رسد کے نظام پر دباؤ پڑ سکتا ہے جس سے حکومت کی آمدنی میں بھی کمی آئے گی کیونکہ مہنگی بجلی کیساتھ اِس کی چوری کے واقعات بڑھ جاتے ہیں اُور جہاں زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے اُن علاقوں کے صارفین کو بحیثیت مجموعی ’لوڈ شیڈنگ‘ برداشت کرنا پڑتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں سترہ فیصد بجلی ترسیلی نظام کی خرابیوں اور دیگر محرکات کی وجہ سے چوری ہو جاتی ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: شہزادہ عرفان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)