قومی تحائف اور امانتیں 

اسلام آباد میں مقیم صحافی رانا ابرار نے پاکستان انفارمیشن کمیشن کے ذریعے ”معلومات تک رسائی“ کی ایک درخواست دائر کی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے سربراہان مملکت کو ملنے والے تحائف کی فہرست و تفصیلات فراہم کی جائیں۔ اِس درخواست کو کیبنیٹ ڈویژن نے ایک عرصے تک اس بنا پر رد رکھا کیونکہ اندیشہ تھا کہ اس قسم کی حساس معلومات منظرعام پر لانے سے پاکستان کے اپنے برادر ممالک کی حکومتوں کے ساتھ تعلقات کو خطرہ ہوسکتا ہے تاہم رانا ابرار ڈٹے رہے اور وہ یہ معاملہ لیکر اسلام آباد ہائی کورٹ جا پہنچے جہاں بلاخر عدالت نے تفصیلات سے پردہ اٹھایا  کہ ہر حکومت کے دور میں غیر ملکی دوروں یا غیرملکی سربراہان مملکت و دیگر شخصیات سے ملنے والے تحائف بغیر کسی قیمت کے یا پھر ان کی مجوزہ انتہائی کم (واجبی) قیمت ادا کر کے اُنہیں اپنے پاس رکھ لیا جاتا ہے یا فروخت کر دیا جاتا ہے۔ اس پورے عمل کے پیچھے منطق جو بھی ہو لیکن وہ درست نہیں ہو سکتی۔
جمہوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی توشہ خانہ کے تحائف رکھنے یا خریدنے کے حوالے سے قانون سازی موجود نہیں۔ رانا ابرار نے یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ کسی باضابطہ قانون کے نہ ہونے کی وجہ سے اس قسم کی خریداری عمومی قواعد (پروسیجر آف توشہ خانہ آفس میمورنڈم) کے تحت کی جاتی ہے جسے وقتاً فوقتاً ترمیم کر کے کیبنیٹ سیکرٹری اپنے دستخطوں سے جاری کرتا ہے اور اس میں کسی بھی وقت ترمیم کا اختیار بھی اِسی کیبنیٹ سیکرٹری ہی کے پاس ہوتا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ پارلیمنٹ توشہ خانہ معاملے پر توجہ مرکوز کرے اور ضروری قانون سازی کرے۔طانوی قانون کے مطابق کوئی بھی وزیر اور وزیرِاعظم صرف ان قومی تحائف کو بغیر قیمت ادا کئے اپنے پاس رکھ سکتا ہے جن کی مالیت 140 برٹش پاؤنڈز سے کم ہو جبکہ اس سے زیادہ مالیت کے تحائف رکھنے کے لئے انہیں اُس آئٹم کی پوری مالیت کے برابر رقم ادا کرنی ہوتی ہے۔ اسی طرح کی ایک قانون سازی 1966ء میں امریکہ میں بھی کی گئی تھی۔ 
یہ وہ دور تھا جب امریکی صدور کو تحفے میں گاڑیاں  ملنے لگیں۔ امریکہ میں بھی 375ڈالر کی حد مقرر ہے اور اگر کسی قومی تحفے کی مالیت اِس پونے چار سو ڈالر کی پیمانے سے زیادہ ہو اور کوئی حکمران وہ خریدنا چاہے تو اُسے پوری قیمت ادا کرنا ہوتی ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں بلکہ قومی تحائف کی پندرہ سے بیس فیصد قیمت ادا کر کے اُسے حاصل کیا جا سکتا ہے اور یہ پندرہ بیس فیصد قیمت بھی انتہائی کم تعین کی جاتی ہے۔ سال 2012ء میں برما کی رہنما ”آنگ سانگ سوچی“ نے امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ ہلیری کلنٹن کو سیاہ موتیوں کا ایک ہار تحفے میں دیا۔ ہلیری کلنٹن اسے اپنے پاس رکھنا چاہتی تھیں اس وجہ سے انہوں نے اس ہار کی مکمل قیمت یعنی 970 ڈالر ادا کی۔ یوں ان تحفوں سے کوئی بھی حکمران منافع نہیں کما سکتا۔  پاکستان کی کہانی مختلف ہے کہ سال 1999ء سے لیکر 2009ء کے درمیان صدور اور وزرائے اعظم نے مجموعی طور پر 10 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے تحفے 20فیصد قیمت ادا کر کے حاصل کئے۔ ہمارے حکمران قومی تحائف کی پوری (مکمل) قیمت ادا کرسکتے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کرتے تو ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکمرانی سے جڑے ذاتی مفادات اور قومی مفادات کو ایک دوسرے سے الگ الگ کر کے دیکھا جائے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: عباس ناصر۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)