سرکاری شعبے کی بہت سی جامعات بالخصوص پرانی اور بڑی یونیورسٹیوں کو گزشتہ چند برس سے آمدن و اخراجات (بجٹ) میں عدم توازن کے باعث شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ ان میں سے کئی سالوں کے دوران افراط زر دو ہندسوں کے قریب رہا ہے۔ حکومت نے یونیورسٹیوں کے بار بار اخراجات کے لئے فنڈنگ میں بھی متعدد مرتبہ کمی کی ہے اور ان سالوں میں جب فنڈز میں کٹوتی نہیں کی گئی تو حکومت نے پچھلے سالوں کے اخراجات کو بمشکل پورا کیا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ یونیورسٹیاں اپنی ٹیوشن فیس میں ایک خاص حد سے زیادہ اضافہ نہیں کر سکتیں۔ افراط زر (مہنگائی) اور تدریسی ضروریات و یوٹیلٹی بلز پر لاگت میں اضافے جیسے عوامل کی وجہ سے درس و تدریس سے متعلق سہولیات میں توسیع ممکن نہیں رہی ہے کیونکہ اخراجات دن بہ دن بڑھ رہے ہیں جبکہ آمدنی اور حکومتی امداد دن بہ دن کم ہو رہی ہے۔یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ کچھ پرانی یونیورسٹیوں‘ جن پر پنشن کی ذمہ داریاں بھی نمایاں ہیں کے پاس مالی وسائل کی شدید کمی ہے۔ کچھ جامعات ایسی بھی ہیں جو مخصوص مہینوں میں ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی بروقت نہیں کر سکی ہیں اور ایسی جامعات کو بسا اوقات تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے ہنگامی بنیادوں پر مالی وسائل حکومت سے لینا پڑتے ہیں۔ کچھ یونیورسٹیوں نے اپنی فیکلٹی‘ دیگر عملے اور ریٹائرڈ ملازمین کو تنخواہ کی ادائیگی اور یہاں تک کہ پنشن کی ادائیگیاں مؤخر کر دی ہیں لیکن اِس کے باوجود بھی نئی سرکاری یونیورسٹیاں بنائی جا رہی ہیں وفاقی اور صوبائی حکومتیں یونیورسٹیوں کے خسارے بارے علم رکھنے کے باوجود بھی اگر ایسی جامعات بنا رہی ہیں تو اِس سے صرف جامعات ہی نہیں بلکہ حکومتوں کی مالی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا۔ حالیہ دنوں میں وفاقی حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے متعدد نئے ادارے بھی قائم کئے ہیں جن میں سے کچھ تو بہت مہنگے ہیں۔ ان یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی منصوبوں کے بار بار اخراجات شروع ہونے کے بعد اعلیٰ تعلیم کی فنڈنگ کا دعویٰ بھی کیا جائے گا۔ چند روز قبل ہم نے دیکھا کہ موجودہ حکومت نے اگلے سال کے لئے یونیورسٹیوں کے لئے صرف تیس ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی۔ گزشتہ سال یہ رقم تقریباً پینسٹھ ارب روپے تھی۔
اگر یونیورسٹیاں پینسٹھ ارب روپے کے ساتھ مالی مشکل میں تھیں تو اِنہیں تیس ارب روپے دینے پر صورتحال کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں اور نہ ہی مستقبل قریب میں جامعات کس قسم کے بحرانوں سے گزریں گی‘ اس بات کا تعین کرنا بھی زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اعلیٰ تعلیم کا مستقبل ذہن میں رکھتے ہوئے حکومت سے اپیل ہے کہ اعلی تعلیم کے لئے مالی فنڈنگ میں اضافہ کیا جائے۔اگر جامعات کو دیئے جانے والے سرکاری مالی وسائل میں حسب وقت و آبادی اضافہ نہیں کیا جاتا تو کم از کم یونیورسٹیوں کو اتنے مالی وسائل دیئے جانے چاہئیں جن سے اُن کی گزر بسر ہو سکے اُور جو گزشتہ برس دیئے گئے تھے۔ اگر ہم پاکستان میں مہنگائی (افراط زر) کی بات کریں جو اگرچہ دس فیصد سے زیادہ ہے لیکن اگر اسے 10فیصد ہی تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب آنے والے سال کے لئے تقریباً72ارب روپے درکار ہوں گے۔ اگر اِس قدر مالی وسائل فراہم کر بھی دیئے جائیں تو جامعات کی تعمیروتوسیع سے متعلق زیادہ تر ترقیاتی منصوبوں کو روکنا ضروری ہو جائے گا اور دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ نئی یونیورسٹیوں کے قیام سے متعلق منصوبوں کو جہاں ہیں اور جیسا ہیں کی بنیاد پر روک دینا چاہئے کیونکہ ایسی صورت میں نئی اُور پرانی جامعات کے لئے مختص مالی وسائل کم ہو جائیں گے جو پہلے ہی کافی نہیں ہیں۔ واضح طور پر پاکستان اس مرحلے پر نئی یونیورسٹیوں کے قیام کا متحمل نہیں ہوسکتا لیکن اگر اِس کے باوجود بھی نئی جامعات تعمیر کی گئیں تو ایسا کرنا درحقیقت تعلیم کے معیار پر سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہوگا اگر حکومت واقعی اعلیٰ تعلیم کے لئے مالی وسائل کی فراہمی (فنڈنگ) میں نصف کمی کرتی ہے اور سرکاری جامعات کو اگلے مالی سال کے بجٹ میں صرف 30 ارب روپے ملتے ہیں تو اِس بحرانی صورتحال سے تو بہترہے کہ جامعات میں جاری تدریسی پروگراموں اور جامعات ہی کو بند کر دیا جائے اگر ایسا ہوا تو یہ طے شدہ حکمت عملی کے طور پر ہوگا اور اس کام کو سوچ سمجھ کر کرنا ہی بہتر ہے لیکن ساتھ ہی حکومت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اعلیٰ تعلیم خاطرخواہ حکومتی توجہ سے محروم ہے جس کے نوجوانوں پر اثرات اور پاکستان کے لئے مستقبل میں ترقی کے امکانات کے حوالے سے نتائج تسلیم و قابل قبول ہونے چاہیئں۔