پاکستان کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتیں اگر یک سو ہو کر قومی مسائل کا حل ڈھونڈیں تو اِس سے بہت ساری مشکلات و مسائل اور بحران ٹل سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سیاسی استحکام‘ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض کی قسط ادا کرنے پر رضامندی کا پاکستان میں اعلیٰ تعلیم سے کیا تعلق ہے؟ رواں مالی سال (دوہزار اکیس بائیس) کے لئے ’ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)‘ کا بجٹ پنسٹھ ارب روپے مختص کیا گیا تھا۔ یہ رقم پورے سال کیلئے ملک میں تقریبا 150 سرکاری یونیورسٹیوں کو چلانے کے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے مختص کی گئی تھی جو یقینا کافی نہیں تھی اور یہی وجہ رہی کہ کچھ سرکاری یونیورسٹیاں ایسی بھی ہیں جن کے پاس اپنے موجودہ تدریسی عملے کو تنخواہیں تک ادا کرنے کیلئے مالی وسائل نہیں ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان پیٹرولیم مصنوعات پر جس قدر سبسڈی دیتا ہے اعلیٰ تعلیم کیلئے بھی قریب اُسی قدر رقم مختص کرتا ہے جو محض حسن اتفاق لیکن صورتحال کی گہرائی کو سمجھنے کیلئے خاص نکتہ ہے۔ اندازے کے مطابق رواں مالی سال کے آخر تک ’اعلیٰ تعلیم (ایچ ای سی)‘ کیلئے مختص سالانہ بجٹ سے چار گنا زیادہ ایندھن کی سبسڈی پر خرچ کیا گیا جو کسی بھی صورت حسب حال و حسب ضرورت نہیں ہے۔چند روز قبل فنانس ڈویژن کی جانب سے آئندہ مالی سال (دوہزاربائیس تیئس) کے بجٹ کے حوالے سے ایک سرکاری خط (بتاریخ تیئس مئی دوہزاربائیس) منظرعام پر آیا جس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اگلے سال کیلئے ایک نیا بجٹ تیار کرے جو زیادہ سے زیادہ 30 ارب روپے کی حد پر پورا اُترتا ہو‘ جو نہایت ہی کم ہے اور مالی سال دوہزاراکیس بائیس میں جبکہ ایک سال کیلئے 65 اعشاریہ 25 ارب روپے مختص کئے گئے تھے‘
30 ارب روپے نصف سے بھی کم ہیں اور اِس قدر کم رقم سے ملک میں اعلیٰ تعلیم کا شعبہ مزید مالی مشکلات کا شکار ہو جائیگا۔پاکستان کے فیصلہ ساز جس قومی ترقی کی بات کرتے ہیں وہ اعلیٰ تعلیم پر فراخدلی سے خرچ کئے بغیر حاصل نہیں ہو سکے گی۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ 2 ہفتوں میں ایندھن پر دی جانے والی سبسڈی سے کم رقم پورے سال کیلئے اعلیٰ تعلیم کیلئے مختص کی جاتی ہے۔ پاکستان کے نظام تعلیم میں صرف اعلیٰ تعلیم ہی نہیں بلکہ سکول و کالج کی سطح پر تعلیم کو بھی زیادہ توجہ اور حکومتی سرپرستی کی ضرورت ہے کیونکہ خواہشات سے کام نہیں چلتا اور اگر پاکستان اعلیٰ تعلیم و ہنرمندی میں سرمایہ کاری کرے تو نوجوانوں کی بڑی تعداد بیرون ملک جا کر محنت مزدوری کے ذریعے ترسیلات زر کے ذریعے قومی خزانے کو قرضوں کے دباؤ سے نکال سکتی ہے۔ تحریک انصاف کو رخصت کرنے کے بعد مسلم لیگ نواز کی قیادت میں مخلوط حکومت نے ایسے تمام منصوبوں پر پیشرفت روک دی ہے جنہیں سیاسی ترجیحات کی وجہ سے شروع کیا گیا تھا لیکن اِس بات کا جواب کون دے گا کہ موجودہ حکومت کے شروع کردہ منصوبوں کو آنے والی کسی دوسری سیاسی جماعت کی حکومت جاری رکھے گی یا نہیں؟ پاکستان کی 225 یونیورسٹیوں میں سے 31 (تقریبا چودہ فیصد) اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ ٹیکسلا کے میٹروپولیٹن علاقوں میں واقع ہیں جہاں قریب چالیس لاکھ افراد رہتے ہیں اور ملک کی مجموعی آبادی کا بمشکل دو فیصد سے بھی کم تناسب ہے۔ موجودہ حکومت ایک نئی یونیورسٹی بنانا چاہتی ہے لیکن ایک ایسا علاقہ کہ جہاں پہلے ہی 31 یونیورسٹیاں موجود ہوں وہاں بتیسویں یونیورسٹی قائم کرنا دانشمندانہ اقدام نہیں ہوگا۔ نئی جامعات بنانے کی بجائے پہلے سے موجود سرکاری یونیورسٹیز کی مالی مشکلات حل کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ افراط زر (مہنگائی) کے دور میں جبکہ حکومت قرض لیکر ملک کو چلا رہی ہو وہاں آٹھ سے دس ارب روپے اگر کسی نئی یونیورسٹی کے قیام پر خرچ کئے جائیں گے تو اِس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ قابل ذکر ہے کہ ’ایچ ای سی‘ نے اپنے ترقیاتی بجٹ کیلئے پنتالیس ارب روپے کی درخواست کی تھی
لیکن اسے صرف پنتیس ارب روپے دیئے گئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک نئی یونیورسٹی کے قیام کی لاگت اگلے سال کے اعلی ٰ ترقیاتی بجٹ کے ایک تہائی کے برابر کمی لا سکتی ہے۔ ایچ ای سی سے یونیورسٹیوں کو ملنے والی مالی معاونت لازمی طور پر سکڑ جائے گی اور ایک ریگولیٹر کے طور پر ’ایچ ای سی‘ کا ان پر جو بھی اثر پڑے گا وہ مزید کم ہو جائے گا۔ راقم الحروف نے یونیورسٹیوں کو عوامی فنڈز سے زیادہ مالی طور پر آزاد ہونے کی دلیل دی ہے تاہم یونیورسٹیوں کو آمدنی کے متبادل ذرائع کیلئے کاروباری منصوبے تیار کرنے کا وقت اور موقع ملنا چاہئے لیکن اگر مالی وسائل فراہم نہیں کئے جائیں گے مذکورہ ترقیاتی کام مکمل نہیں ہو سکتے۔پاکستان میں کل 225 یونیورسٹیوں میں سے قریب 150 کو حکومت کی جانب سے مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔ گزشتہ سال یہ بات سامنے آئی تھی کہ ایک سرکاری یونیورسٹی نے اخراجات پورے کرنے کیلئے اپنے فیکلٹی پنشن فنڈز کا استعمال کیا تھا اور اِس وجہ سے اُس کے پاس پنشن کی ادائیگی کیلئے مالی وسائل نہیں رہے اور وہ جلد دیوالیہ ہونے والی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو اگر حکومت کی جانب سے مالی امداد فراہم نہیں کی جاتی تو اِس سے اعلیٰ تعلیم کا معیار بھی خراب سے خراب تر ہوتا چلا جائے گا۔ توجہ طلب ہے کہ ایک سو بیس سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں نے اِس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ دیگر اخراجات کو چھوڑ کر وہ ماہانہ تنخواہ اور پنشن جیسی مالیاتی ذمہ داریاں پوری کرنے کے قابل نہیں رہے۔ نئی یونیورسٹیوں کا قیام بظاہر آسان اور ممکن ہے لیکن اگر ’ایچ ای سی‘ کو ملنے والی حکومتی امداد پہلے ہی کم ہو رہی ہے تو ایسی صورت میں نئی جامعات کے قیام سے اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو ملنے والے مالی وسائل مزید کم ہو جائیں گے۔ مزید (نئی) سرکاری یونیورسٹیوں کا قیام صرف اسی صورت میں ہونا چاہئے جبکہ ان کے پاس طویل مدتی اخراجات کے لئے مالی وسائل موجود ہوں۔ وہ مالی طور پر خود انحصاری و پائیداری کی حامل حکمت عملیاں رکھتے ہوں اور قومی خزانے پر اُن کا انحصار کم سے کم ہو۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عائشہ رزاق۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)