معاشی سہارا

پاکستان کی درآمدات زیادہ اور برآمدات کم ہیں اور اِس عدم توازن کی شدت میں اضافے کی بنیادی وجہ ملک کے جاری اخراجات (کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ) ہے جسے وقتی طور پر کم کرنے کے لئے ایک مرتبہ پھر پاکستان حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض لینے کا فیصلہ کیا ہے۔کسی بھی ملک کو ’آئی ایم ایف‘ کا قرض اس لئے دیا جاتا ہے کہ یہ قرض ادارہ جاتی ڈھانچے کو مضبوط بنانے (معاشی اصلاحات) کیلئے دیا جاتا ہے تاکہ وہ ملک اپنے ہاں بحران پر قابو پائے اور اُسے ادائیگیوں میں جو مسئلہ درپیش ہے اُس پر قابو پایا جائے۔ قلیل مدتی بحرانوں سے نمٹنا بھی حکومت کے لئے چیلنج ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ضرورت اِن امور کی ہے کہ مہنگائی (افراط زر) بجٹ اخراجات میں کٹوتی اور اضافی ٹیکس کا بوجھ غریبوں کی بجائے امیروں پر ڈالا جائے۔ 
مثال کے طور پر‘ جیسے جیسے ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اِس سے افراط زر (مہنگائی) کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔ غریبوں کے لئے غذائی ضروریات پر خرچ کرنے کے لئے پیسے کم ہو جاتے ہیں پاکستان کو طویل المدتی اور قلیل المدتی معاشی ترقیاتی حکمت عملی کی ضرورت ہے اور یہ حکمت عملی اپنے وسائل اور اپنے ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی کی بنیاد پر ہونی چاہئے۔ اس سلسلے میں وضع کی جانے والی نئی پالیسی کی سات خصوصیات ہو سکتی ہیں۔ پہلا یہ کہ معیشت کی ازسرنو تشکیل کی جائے جس میں افرادی قوت (عوام) کی صلاحیتوں کو فروغ ملے اور مساوی و مستقل ترقی کے اہداف حاصل کئے جا سکیں۔
 دوسرا یہ کہ مذکورہ بالا مقصد کے حصول کیلئے حکومت تمام شہریوں کے لئے اعلی معیار کی صحت عامہ کی دیکھ بھال اور تعلیم کا بندوبست کرے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق عوام میں اس قسم کی سرمایہ کاری سے زیادہ معاشی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ زیادہ صحت مند‘ زیادہ تعلیم یافتہ اور ہنرمند آبادی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرے گی اور اِس اختراع میں اضافہ کرے گی۔ جیسا کہ ہارورڈ کے پروفیسر اگھیون نے کہا ہے کہ ”اختراعات کی گہرائی اور حد جتنی زیادہ ہوگی‘ طویل مدتی معاشی ترقی بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ تیسرا خوراک کو بنیادی انسانی حق قرار دیا جائے چونکہ افراط زر کی وجہ سے غریب طبقات کے لئے کھانے پینے کی اشیا (آٹا‘ کھانا پکانے کا تیل‘ دال‘ سبزی) کا حصول مشکل ہو جاتا ہے اِس لئے اِن غذائی اجناس پر خاص طبقات جو کہ غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں انہیں کم سے چالیس سے پچاس فیصد سبسڈی دی جانی چاہئے۔
 چوتھا یہ کہ فوری ڈیفالٹ (دیوالیہ) ہونے سے بچنے کیلئے درآمدی اخراجات میں کمی ضروری ہے لیکن اگر معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے تو درآمدات کی حوصلہ شکنی مسئلے کا پائیدار حل نہیں ہوگا۔ مستقل طویل مدتی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ برآمدی نمو تیز کی جائے پانچویں الیکٹرانکس‘ میٹالرجیکل اور متبادل توانائی کے شعبوں میں چھوٹے پیمانے پر ہائی ٹیک انٹرپرائزز کی سرپرستی کی جائے تاکہ درآمدی متبادل کے ساتھ برآمدی نمو میں تیزی لائی جاسکے۔چھٹا یہ کہ چھوٹے پیمانے پر زراعت کی سرپرستی کی جائے۔ پاکستان میں چھوٹے کاشتکار یعنی فارم سیکٹر زیادہ ہے جو پچیس ایکڑ سے کم قابل کاشت زرعی اراضی پر کام کرتا ہے اور ایسے فارم پاکستان کے کل زرعی شعبے کے ساٹھ فیصد حصے پر ہیں جن سے 94فیصد کاشتکاروں کا روزگار وابستہ ہے لیکن ایسے طبقات کو خاطرخواہ مراعات حاصل نہیں ہیں۔
 پاکستان میں دودھ‘ دودھ کی مصنوعات اور گوشت کی پیداوار اور برآمدات کے شعبوں میں فوری ترقی کے امکانات موجود ہیں زراعت کو دوبارہ منافع بخش بنانے کیلئے جدید زرعی ٹیکنالوجی متعارف ہونی چاہئے جس میں کم رقبے اور کم پانی کے استعمال سے زیادہ مقدار میں زرعی پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔ تجویز یہ بھی ہے کہ قلیل مدتی مالی بحران سے نمٹنے کے اقدامات کے ساتھ معاشرے کے انتہائی کمزور طبقات کو اس ناگزیر معاشی مشکلات کے دور میں تکلیف سے بچانے کی کوششیں جانی چاہئیں اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ترقی کی ایک نئی راہ اور نئی منزل بھی طے کرنی چاہئے جس کے ذریعے چند لوگوں کی بجائے تمام لوگوں کی صلاحیتوں اور کاروباری اداروں کو ترقی دی جائے جو پائیدار اور مساوی معاشی ترقی کا باعث بنے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر اکمل حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)