عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ روس یوکرین جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات بالخصوص اس تنازعے سے متاثرہ یوکرین کے باشندوں کی حالت زار پر مرکوز ہے جہاں ہر روز ہولناکیاں انسانی ضمیر کو جھنجوڑ رہی ہیں لیکن افغانستان کی داخلی صورتحال یوکرین سے زیادہ تشویشناک ہے جہاں انسانی بحران زیادہ بڑا المیہ ہے۔ طالبان کے اقتدار سے افغانستان اقتصادی مشکلات سے دوچار ہے۔ روزگار اور ملازمتوں کے علاؤہ شدید خشک سالی ہے جس کی وجہ سے افغانستان کی نصف آبادی غذائی کمی و قلت سے متاثرہ ہے اور افغانستان کی اکثریت کو علاج و صحت کی سہولیات بھی میسر نہیں۔ ایک طرف بھوک و افلاس اور دوسری طرف خشک سالی نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے نمائندے جو گزشتہ ایک دہائی سے افغانستان میں رہ رہے ہیں یا افغانستان کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے سفر کرتے ہیں اُن میں سے ایک سنی اینگل راسموسن بھی ہیں جن کا اپریل دوہزاربائیس میں وال سٹریٹ جرنل کے ایک پوڈ کاسٹ میں انٹرویو نشر ہوا اور انہوں نے افغانستان میں خوراک کی قلت کے بارے میں وہاں کے زمینی حقائق بیان کئے۔ راسموسن کے مطابق افغانستان میں خوراک کی قلت کی صورتحال اتنی سنگین ہے کہ روٹی کے ایک ٹکڑے کی قیمت دس امریکی سینٹ (یا پاکستانی کرنسی میں بیس روپے) ہے یقینا چونکہ بہت کم ملازمتیں ہیں اس لئے زیادہ تر افغانوں کیلئے روٹی کا ایک ٹکڑا تک خریدا ممکن نہیں رہا ہے۔ آمدن کے ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے افغان پریشان ہیں اور اُنہوں نے زندہ رہنے کیلئے اپنے مال و متاع حتی کہ بچے تک فروخت کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جس میں غربت سے متاثرہ لوگوں نے اپنے جسمانی اعضا فروخت کئے۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ ایسے بہت سے افغانوں سے بھی ملاقات کر چکے ہیں جنہوں نے غربت کی وجہ سے اپنے گردے فروخت کئے ہیں۔ بظاہر گردوں کی فروخت ایک معمول کی بات ہے اور سرمایہ دار غربت سے فائدہ سے فائدہ اُٹھاتے ہیں لیکن افغانستان کی صورتحال میں یہ ایک مختلف نوعیت کا کاروبار ہے اور کہا جاتا ہے کہ صوبہ ہرات انسانی اعضا کی خریدوفروخت اور تجارت کا مرکز بنا ہوا ہے۔ غیرملکی صحافی کی مذکورہ رپورٹ (پوڈ کاسٹ) جس کا عنوان ”افغانستان: مایوسی کی معیشت“ ہے میں وہ ایک مقامی شخص کی کہانی بھی بیان کرتا ہے جو تعمیراتی کارکن ہے‘ بیروزگار ہے اور قرض لیکر اپنے روزمرہ ضروری اخراجات پورے کر رہا ہے لیکن صورتحال یہ درپیش ہوئی کہ ایک مرحلے پر اُسے قرض واپس کرنے کیلئے دو میں سے ایک آپشن کا انتخاب کرنا پڑا کہ معاوضے کے عوض اپنی بیٹیوں کی شادی یعنی اُنہیں فروخت کر دے یا پھر اپنا گردہ فروخت کر دے تاہم چونکہ انہیں اور ان کی اہلیہ دونوں کو طبی مسائل تھے‘
اس لئے وہ طبی جانچ کے بعد گردے کے عطیہ دہندگان کے طور سے نااہل قرار پائے چونکہ والدین اپنے سب سے بڑے بیٹے کی صحت کو قربان کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے جو اپنی معمولی روزمرہ آمدنی سے بیس رکنی گھرانے کی کفالت کرتا ہے‘ اس لئے انہوں نے پندرہ سالہ بیٹے کا گردہ فروخت کرنے کا فیصلہ کیا تاہم خلیل کو اِس فیصلے کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔ اِس فروخت سے اُنہیں قریب ساڑھے چار ہزار ڈالر وصول ہوئے اور قرض ادا ہو گئے لیکن اُن کا جوانسال بیٹا اب پہلے کی طرح فعال نہیں رہا وہ دوستوں کے ساتھ فٹ بال نہیں کھیل سکتا۔ وہ معمولی جسمانی مشقت کی صورت جلد تھک جاتا ہے اور زیادہ تر وقت تھکاوٹ محسوس کرتا ہے اور اس وجہ سے اُس کی سرگرمیاں اب گھر تک محدود ہیں۔ افغانستان میں غریبوں کی جانب سے جسمانی اعضا کی فروخت روکنے کا کوئی آسان حل نہیں حالانکہ ایسا کرنا غیر قانونی ہے۔ جیسا کہ مسٹر راسموسن بتاتے ہیں ”حقیقت یہ ہے کہ اگر افغان حکومت گردے فروخت کرنے کے کاروبار کے خلاف کریک ڈاؤن کرے تو اِس کا مطلب معاشرے کے انتہائی غریب لوگوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوگا جن کے پاس اب آمدنی کے ذرائع بہت کم رہ گئے ہیں۔مغربی ذرائع ابلاغ ہمیشہ سے افغان طالبان حکومت کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں جبکہ افغانستان میں معاشی مشکلات نے افغان عوام کی بڑی اکثریت کی زندگیوں کو جہنم بنا رکھا ہے۔طالبان کے ناقدین اکثر اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ افغانستان جیسے قبائلی معاشروں میں خوراک کی قلت کس قدر شدید ہے اور اِس قحط کی وجہ سے سب سے زیادہ خواتین اور بچے متاثر ہو رہے ہیں۔نائن الیون دہشت گرد حملے (جس میں کوئی بھی افغان شہری نہ تو منصوبہ بندی اُور نہ ہی حملے ملوث تھا) کے جواب میں امریکہ نے افغانستان پر فوج کشی کی‘ ڈرون حملے کئے‘ دنیا کا سب سے وزنی بم بھی افغانستان پر گرایا گیا اور افغان عوام کے قتل عام کے باوجود طالبان اگست دوہزاراکیس میں بغیر کسی مسلح مزاحمت کے کابل میں داخل ہو گئے۔ جس کے بعد افغانستان کے اثاثے منجمد کر لئے گئے ہیں۔ طالبان چاہتے ہیں کہ اُنہیں فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک میں جمع کرائے گئے اپنے غیر ملکی کرنسی ذخائر تک رسائی دی جائے تاکہ وہ عوام کو درپیش مشکلات کا کوئی حل نکال سکیں لیکن دنیا افغان عوام کے مصائب کو دیکھنے کے باوجود بھی نظرانداز کر رہی ہے۔افغانستان کو انسانی ہمدردی کے علاوہ سلامتی کے بنیادی مسائل کا بھی سامنا ہے جس سے نمٹنے کیلئے دیگر ممالک کو طالبان کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔ افغانستان کے پاس بیش قیمتی معدنی ذخائر ہیں جیسا کہ لیتھیئم اور تانبے کے ذخائر۔ یہ دھاتیں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے لئے استعمال ہوتی ہیں اور کئی ممالک نے ماحول دوست گاڑیوں کے لئے 2030ء کی حد مقرر کر رکھی ہے جو الیکٹرک وہیکل (ای وی) انقلاب کی صورت ظاہر ہوگا۔ اگر دنیا افغانستان کے ساتھ اِس مشکل میں کھڑی ہو اور اُسے سہارا دے تو مستقبل میں افغانستان کے معدنی ذخائر سے فائدہ اُٹھا سکتی ہے۔ اِسی طرح پاکستان بھی افغانستان کی ترقی سے نمایاں فائدہ اٹھا سکتا ہے کیونکہ گوادر بندرگاہ پاکستان کے راستے افغان تجارت کی ایک اہم راہداری بن سکتی ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: اقبال حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)