خوشخبری یہ ہے کہ ”قومی اکاؤنٹس کمیٹی“ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال دوہزار اکیس بائیس میں ملک کی خام پیداوار کی شرح نمو 5.97 فیصد ہے اور بُری خبر یہ ہے کہ اس مثالی و صحت مند شرح نمو کے باوجود پاکستان کو ایک بار پھر دوہرے خسارے یعنی ڈالر خسارہ (کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسیڈ) اور روپے کے خسارہ (یعنی مالی خسارہ) کا سامنا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کی قومی پیداوار کی شرح میں ترقی کے باوجود معاشی خرابیاں سامنے آئی ہوں۔ کوئی یہ دلیل دے سکتا ہے کہ مسلسل دو سے تین سال تک پانچ سے زائد فیصد پوائنٹس کی معاشی ترقی (فی کس آمدنی میں اضافہ) پاکستان کی معیشت کو ترقی دینے کا باعث ہو سکتی ہے۔
سیاق و سباق کو درست کرنے کیلئے ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان کی پچانوے فیصد ترقی کا انحصار پیداوار سے نہیں بلکہ کھپت سے ہے جس کے نتیجے میں بچت کم اور سرمایہ کاری کے لحاظ سے جی ڈی پی کا تناسب کم ہے۔ چھیاسی فیصد کھپت گھرانوں کی ہے جو معاشی اونچ نیچ کو برداشت نہیں کر سکتے اور معمولی سی کمی بیشی بھی اِنہیں فوراً متاثر کرتی ہے۔ اِسی طرح پاکستان کی 90فیصد سے زیادہ ترقی درآمدات پر مبنی ہے اور چونکہ برآمدات کم ہیں اِس لئے جاری اخراجات کا خسارہ بھی ہر دن بڑھ رہا ہے۔ یہ صورتحال معاشی خلفشار کی نشاندہی کرتی ہے‘ جس کا پاکستان کو سامنا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کیلئے برآمدی آمدنی‘ ترسیلات زر میں اضافہ‘ غیر ملکی سرمایہ کاری یا ڈالر کے فرق کو ختم کرنے کیلئے قرضوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستان کی برآمدات اور ترسیلات زر پہلے ہی ریکارڈ بلند سطح پر ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کا اندازہ ہے کہ 30جون 2023ء تک پاکستان کی بیرونی فنانسنگ کی ضرورت (برآمدی آمدنی اور ترسیلات زر) قریب 46ارب ڈالر ہوگی۔ سٹیٹ بینک کو توقع ہے کہ اگر آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ شروع ہوتا ہے اور پاکستان اُس مالیاتی نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتا ہے جس کی آئی ایم ایف توقع رکھتا ہے تو اگلے تیرہ ماہ کے دوران تقریبا ً51ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ حاصل کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں سیاسی غیر یقینی صورتحال اور حکومت کی جانب سے ’پیشگی اقدامات‘ (خاص طور پر ایندھن پر دی جانے والی سبسڈی منسوخ کرنا) میں بڑی رکاوٹیں تھیں۔
پچھلی حکومت بھی پورے ایک سال کیلئے ’آئی ایم ایف‘ کے پاس جانے سے گریزاں رہی تاہم اُس نے سعودی عرب اور چین جیسے دوست ممالک سے مالی اعانت حاصل کی اور ملک چلاتے رہے لیکن یہ معیشت کو سنبھالا دینے کا پائیدار ذریعہ نہیں تھا۔ موجودہ حکومت نے بھی شروع میں یہی کوشش کی لیکن دوست ممالک نے سٹیٹ بینک میں اپنی جمع پونجی کو ’آئی ایم ایف پروگرام‘ کی بحالی سے جوڑ دیا۔
اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ’آئی ایم ایف‘ کی حمایت کے بغیر پاکستان کا معاشی طور پر برقرار رہنا ممکن نہیں حکومت نے بالآخر پیٹرولیم مصنوعات (پی او ایل) کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا اور آنے والے چند ہفتوں میں بجلی اور گیس کے نرخوں میں بھی اضافہ متوقع ہے جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ آئی ایم ایف کے پروگرام میں واپسی کیلئے ’پیشگی اقدامات‘ کے طور پر مالی استحکام لانا ہوگا جس کیلئے اگلے مالی سال (دوہزار بائیس تئیس) کے وفاقی بجٹ میں پالیسی اقدامات‘ بنیادی مالی خسارے کی حد کے اندر رہنا‘ سات سے زائد کھرب روپے کی آمدنی (مزید ٹیکس) جمع کرنا‘ انتخابات کے دوران اخراجات کی حد پر عمل درآمد اور مالیاتی پالیسی کو مزید سخت کرنے جیسے امور شامل ہیں۔
حکومت کیلئے اہم یہ بات ہے کہ آئندہ چند ماہ میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اور ایسی صورت میں غیر مقبول فیصلوں کے نتائج اُنہیں انتخابی خسارے کی صورت برداشت کرنا پڑیں گے۔ خوش قسمتی سے آئی ایم ایف ٹارگیٹڈ سبسڈی فراہم کرنے کی اجازت دیتا ہے اور اِس گنجائش سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے لئے حکومت نے ایک کروڑ چالیس لاکھ (14ملین) گھرانوں کو ماہانہ دوہزار روپے کی یکمشت رقم ادا کرے گی۔ اس ادائیگی کا مقصد کم اور متوسط آمدنی رکھنے والے طبقات پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات کم کرنا ہے۔ یہ سبسڈی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے ذریعے تقسیم کی جائے گی اور 35 ہزار روپے سے کم آمدنی رکھنے والے گھرانے اِس سبسڈی کو حاصل کرنے کے اہل ہوں گے‘ گزشتہ حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر سبسڈی دی۔ پاکستان میں توانائی (بجلی گیس پیٹرول) واحد ایسا شعبہ نہیں کہ جہاں قیمتیں بڑھ رہی ہے۔
پاکستان میں خوراک اور توانائی کی قیمتیں بڑھنے کا سلسلہ کورونا وبا میں زیادہ ہوا جبکہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے معاشی ترقی بھی رک گئی ہے جو ہمارے معاشی نظام میں پائی جانے والی ایک فطری خامی ہے‘ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ”عالمی سطح پر خوراک کی قلت‘ قحط‘ عدم استحکام اور نقل مکانی کے امکانات ہیں اور یہ صورتحال برسوں تک قائم رہ سکتی ہے۔“ مقامی پیداوار میں کسی بھی کمی کو پورا کرنے کیلئے پاکستان یوکرین یا روس سے گندم درآمد کرتا تھا۔ یوکرین اور روس سے گندم ناقابل رسائی بن گئی ہے۔ اس لئے نہ صرف بین الاقوامی مارکیٹ میں گندم کی فراہمی کی قلت ہے بلکہ یہ مہنگی بھی ہو گئی ہے (گزشتہ پانچ ماہ کے دوران گندم کی قیمت میں 63فیصد اضافہ ہوا ہے)۔ اس سے پاکستان کی تیس لاکھ ٹن گندم کی درآمدات مہنگی ہو جائیں گی جس سے آٹے کی قیمت بڑھے گی اور اِس کے لئے عوام کو پہلے ہی سے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے جبکہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ بنیادی ضرورت کی اشیا کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کیلئے ابھی سے منصوبہ بندی کرے۔