مابعد انتخابات: اسباق

پاکستان میں جلد یا بدیر قومی عام انتخابات کا اعلان ہونا ہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عام انتخابات کے اعلان سے موجودہ سیاسی بحران ختم ہوجائے گا اور کیا وہ سیاسی استحکام حاصل ہوگا جس کی ملک کو شدید ضرورت ہے؟ یقینی طور پر حکومت کیلئے ایک سے بڑھ کر ایک چیلنج استقبال کرنے کیلئے کھڑا ہے اور آگے کا راستہ کسی چیلنج سے کم نہیں۔ عام انتخابات کے حوالے سے کسی ضابطہ اخلاق اور انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے پر اتفاق کرنا یقینا مشکل ہوگا۔ تقسیم کے ایسے ماحول میں کہ جہاں جذبات غالب ہوں‘ کسی قسم کے سیاسی اصول و قانون پر اتفاق پیدا ہونا مشکل ہی نظر آتا ہے۔ کیا انتخابات میں حصہ لینے والی تمام ہی جماعتیں اس بات پر یقین کریں گی کہ انہیں یکساں مواقع دستیاب ہوں گے؟ اگر ہم مستقبل پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں کچھ اور اہم عوامل بھی نظر آتے ہیں۔ کیا تمام سیاسی کردار آئندہ عام انتخابات کے نتائج کو تسلیم کریں گے؟ اور فرض کیجئے کہ اگر وہ انتخابی نتائج کو تسلیم کر بھی لیتے ہیں تو شدید انتخابی جنگ کے بعد کیا ہوگا؟
 یہ بہت اہم سوال ہے پھر بھی ماضی میں انتخابی نتائج کی نوعیت‘ ملک کے تنوع اورحکومت کے وفاقی کردار کی وجہ سے سیاسی رہنماؤں اور اِن کے پیروکاروں کو کچھ تؤقف کرکے معاملات پر سوچ بچار کرنا چاہئے کیونکہ اس کے لئے ملک کو چلانے اور جمہوری نظام کے انتظام کے حوالے سے رواداری چاہئے اور برداشت کا طرز عمل اپنانے کی بھی ضرورت ہوگی۔ اگر ہم گزشتہ دو دہائیوں میں ہونے والے عام انتخابات پر نظر ڈالیں تو دو اہم نکات سامنے آتے ہیں۔ پہلا نکتہ تو یہ کہ اب تک کوئی بھی جماعت پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی اور دوسرا نکتہ انتخابی نتائج کی مقامی نوعیت ہے۔ گزشتہ چار عام انتخابات کی مشق یعنی دوہزاراٹھارہ‘ دوہزارتیرہ‘ دوہزار آٹھ اُور دوہزار دو میں کیا بات مشترک تھی؟ مذکورہ عام انتخابات میں کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی اور جیتنے والی جماعت کو حکومت سازی کے لئے ہمیشہ کسی نہ کسی کا اتحاد بننا پڑا۔ 
یوں ایک منقسم ووٹ اور معلق پارلیمنٹ معرض وجود میں آئی جو پاکستان کی تاریخ میں معمول کی بات ہے۔ مختلف النظریات سیاسی اتحادی جماعتوں کی حکومتوں کے معاملے میں ایک اہم چیز جیتنے والی جماعت کو حاصل ووٹ ہوتے ہیں۔ کسی جماعت کی انتخابی حمایت کو جانچنے کیلئے اسے ملنے والی نشستوں سے آگے بڑھ کر دیکھنا فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ سال 2018ء میں ڈالے گئے ووٹوں میں سے تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو اکتیس فیصد ووٹ ملے جبکہ 2013ء میں نواز لیگ کو 32فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اسی طرح 2008ء میں پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو بھی 31فیصد ووٹ ملے جبکہ 2002ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (قائد اعظم قاف لیگ) کو 23فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ اعداد و شمار اِس حقیقت کا بیان ہیں کہ پاکستان کے انتخابی نظام میں اگر کوئی بھی سیاسی جماعت سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے اور اس کے پاس اتنی نشستیں بھی ہوئیں جس کی مدد سے وہ اتحادی حکومت قائم کرلے تو ایسا اس نے ایک تہائی ووٹوں سے بھی کم ووٹ لیکر کیا ہے۔ یہ ایک تہائی حصہ بھی کل ووٹوں کے بجائے ڈالے گئے ووٹوں کا ہے۔
 ان انتخابات میں ٹرن آؤٹ 53فیصد (2018ء)، 51 فیصد (2013ء)‘ 44فیصد (2008ء) اور 41فیصد (2002ء) رہا۔ ووٹ نہ ڈالنے والے ووٹروں کی بڑی تعداد اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بڑا سیاسی میدان کسی بھی پارٹی کے قبضے میں نہیں ہے۔ اس سے ہم جیتنے والی جماعت کے مینڈیٹ کو حقیقی تناظر میں رکھ سکتے ہیں۔سال 2002ء کے بعد ہونے والے عام انتخابات کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے نتائج علاقائی نوعیت کے تھے اور مختلف صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت بنی۔ سال دوہزار اٹھارہ میں تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی‘ پی پی پی نے سندھ میں حکومت بنائی جبکہ پنجاب میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (نواز) کے درمیان مقابلہ سخت تھا تاہم پی ٹی آئی نے کسی طریقے سے اتحادی حکومت بنالی۔ دوہزارتیرہ میں مسلم لیگ (نواز) نے مرکز اور پنجاب میں حکومت بنائی جبکہ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور سندھ میں پی پی پی نے حکومت بنائی۔ 2008ء میں ’پی پی پی‘ نے مرکز میں حکومت بنائی جبکہ چاروں صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومت تھی۔
 اس وقت پنجاب میں نواز لیگ‘ خیبر پختونخوا میں اے این پی‘ سندھ میں پی پی پی اور بلوچستان میں قاف لیگ کی زیر قیادت اتحاد نے حکومت بنائی۔ اب سوال یہ ہے کہ اس سب کا کیا مطلب ہے اور مابعد انتخابات ملک کے مستقبل کیلئے اس سے کیا سبق ملتا ہے؟ پہلی بات تو یہ کہ پاکستان میں اتحادی حکومتوں کا دور ختم ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اگر آنے والے عام انتخابات میں ماضی جیسا رجحان برقرار رہتا ہے تو پھر جو بھی سیاسی جماعت اکثریت میں آئے اُس کے پاس ووٹوں خاطرخواہ اکثریت نہیں ہوگی۔ یوں اس تصور کو رد کرنا ہوگا کہ جیتنے والی جماعت ہی عوام کی ”واحد نمائندہ جماعت“ ہے اور یہ کہ کوئی اور اس ملک کی نمائندگی نہیں کرتا۔ اس کے بجائے یہ بات تسلیم کرلینی چاہئے کہ جس طرح کسی ایک سیاسی جماعت کا مینڈیٹ درست ہے اسی طرح دیگر جماعتوں کا مینڈیٹ بھی درست ہے اور انہیں بھی سیاسی نظام کا حصہ بنانا چاہئے۔  پاکستان کے نظریئے اور اِس کی وفاقی و آفاقی حقیقت کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی صوبائی حکومتوں کو صرف قبول ہی نہیں کرنا بلکہ عوامی مفاد میں ان کے ساتھ مل کر کام بھی کرنا ہے۔ ان تمام امکانات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کا نتیجہ بھی علاقائی نوعیت کا ہوگا۔ (بشکریہ: ڈان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)