حفاظتی حکمت عملی

ترقی پذیر ممالک میں قومی سلامتی ریاست کے دائرہ کار تک محدود دکھائی دیتی تھی۔ اکیسویں صدی میں قدم رکھتے ہی جمہوریتیں مضبوط ہوئیں۔ اظہار رائے کی آزادی‘ معلومات تک بہتر رسائی اور بہتر شفافیت کا ظہور ہوا۔ گلوبلائزیشن نے معلومات کی ترسیل کی رفتار میں انقلاب برپا کر دیا جس سے قومی سلامتی کے تصورات اور مشق (عمل) پر منفی اثر پڑا۔ گیارہ ستمبر (نائن الیون) کے بعد کے دور نے نہ صرف سیکورٹی چیلنجوں کو کئی گنا بڑھایا بلکہ اس نے سول سوسائٹی کو بھی اس عمل میں ایک فعال سٹیک ہولڈر بنا دیا۔ سال دوہزارچودہ کی قومی داخلی سلامتی پالیسی کے بعد نیشنل ایکشن پلان (این ایس پی) پاکستان کی پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کیا گیا جو دوسری  متفقہ پالیسی دستاویز تھی۔ نیپ‘ نیسپ آئی‘ نیسپ دوم اور حال ہی میں نیشنل سیکورٹی پالیسی (این ایس پی) 2022ء سے 2026ء متعارف کروائی گئی جس میں پالیسی ساز حلقوں نے بہت سے سلامتی چیلنجوں کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور اِس میں ریاست سے حکومت کے نقطہ نظر میں تبدیلی (منتقلی) کی ضرورت کے بڑھتے ہوئے احساس کا ذکر کیا گیا ہے۔
 این ایس پی کی فارمولیشن کا آغاز سال دوہزار چودہ میں ہوا تھا اور کہا جاتا ہے کہ یہ ایک سو بیس ماہرین کی مشاورت کا نتیجہ ہے۔ مذکورہ دستاویز سلامتی پر مرکوز نقطہ نظر سے معیشت اور انسانی سلامتی جیسے موضوعات و حالات کا احاطہ (نمائندگی) کرتی ہے اور بنیادی طور پر اس کے آٹھ حصے ہیں جن میں سے صرف ایک داخلی سلامتی سے متعلق ہے۔آج کے آزاد دور میں قومی سلامتی کی حدود کی درست وضاحت یا احاطہ مشکل ہے لہٰذا قومی سلامتی کے مکالمے میں شرکت میڈیا پر لازم ہے کہ وہ آزادی اور ذمہ داری کے درمیان متوازن نقطہ نظر اپنائے بلوچستان اور پنجاب میں انتظامی اصلاحات اور نئے صوبوں کے قیام سے عوامی خدمات کی فراہمی‘ حکمرانی‘ امن اور ترقی کی رفتار میں بہتری آئے گی۔ فاٹا کا خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام درست سمت میں ایک قدم ہے لیکن صرف انضمام ہی کافی نہیں بلکہ سلامتی پر توجہ مرکوز ہونی چاہئے۔ 
جس کے لئے سماجی ترقی اور فوجداری نظام انصاف کی بحالی کیلئے اصلاحات پر مبنی نقطہ نظر کی بھی ضرورت ہوگی۔ داخلی سلامتی کی ترجیحات کی ہم آہنگی کے لئے فعال بین الصوبائی ہم آہنگی اور سلامتی کے مقاصد کے لئے صوبوں کی طرف سے زیادہ وسائل مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ کمزور ادارہ جاتی صلاحیت اور ردعمل کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے ادارے عام طور پر شماریاتی نقطہ نظر اختیار کرکے عوامی توقعات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے عوامی اطمینان عام طور پر ادھورا رہتا ہے۔ اس تناظر میں پولیس بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ پولیس اصلاحات اور غیر سیاسی پولیس کے بغیر داخلی سلامتی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ سائبر سیکورٹی، پولرائزیشن‘ علاقائی عدم استحکام‘  عوامی خدمات کی ناقص فراہمی ایسے مسائل ہیں جو پالیسی کے نفاذ پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ این ایس پی انسداد دہشت گردی ایجنسیوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ تعاون پر مبنی وفاقیت کے اصولوں پر عمل کرنے سے این ایس پی کے اہداف کو پورا کرنے میں مدد ملے گی لیکن اسے وفاقی‘ صوبائی اور مقامی حکومتوں کے درمیان قریبی اشتراک کی ضرورت ہو گی۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر علی بابا خیل۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)