اقوام متحدہ کی بنیاد دوسری جنگ عظیم (1945ء) کے بعد بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے‘ اقوام کے درمیان دوستانہ تعلقات کے فروغ اور سماجی ترقی‘ بہتر معیار زندگی اور انسانی حقوق کے تحفظ و بقا جیسے نظریات یا ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے رکھی گئی تھی لیکن دنیا کو یہ بات سمجھنے میں ستائیس سال لگے کہ انسانی ماحول پر غور کئے بغیر دنیا میں امن اور سماجی ترقی ناممکن ہے چنانچہ ٹھیک پچاس سال قبل (پانچ جون کے روز) اقوام متحدہ نے سویڈن کے شہر ’سٹاک ہوم‘ میں ماحولیات کے حوالے سے ’پہلی عالمی کانفرنس‘ منعقد کی تھی تاکہ کرہئ ارض کے ماحولیاتی تنوع کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا جا سکے اور جس کی جانب ماحولیاتی امور کے ماہرین ایک عرصے سے اشارہ کر رہے تھے۔ اِس عالمی نشست (کانفرنس) کے بعد ہر سال پانچ جون کو ”عالمی یوم ماحولیات“ منایا جاتا ہے اور اگر ہم پچاس سال کے دوران ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں کو دیکھیں معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر ماحول سے متعلق آگہی اور شعور میں اضافہ ہوا ہے اُسی قدر ماحول کی تباہی و بربادی بھی ہوئی ہے۔عالمی یوم ماحولیات کی ’گولڈن جوبلی‘ کے موقع پر یہ بات لکھتے ہوئے قلم کانپ رہا ہے کہ دنیا اپنی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔
یہ خاص بات ہے کیونکہ آج اس بات چیت کے نتائج کا جائزہ لینے کا وقت ہے جو پچاس سال قبل صنعتی اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان اقتصادی ترقی‘ اس سیارے کی ہوا‘ پانی اور سمندروں کی آلودگی اور دنیا بھر کے لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے شروع کیا گیا تھا۔ پچاس سال پہلے‘ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ (معاشی) ترقی اور (ماحولیاتی) تباہی کے درمیان ایک دوڑ ہے‘ عالمی برادری نے مضبوط ماحولیاتی انتظام کے ذریعے انسانی فلاح و بہبود کو فروغ دینے کا عہد کیا۔ رواں ہفتے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کی جانب سے جاری کئے گئے پیغام میں کہا گیا ہے کہ ”پچاس سال بعد ہم دیکھتے ہیں کہ عالمی بہبود خطرے میں ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے ماحولیاتی وعدوں کو پورا نہیں کیا ہے۔“ اُوزون گیس کی پرت کو بچانے کے لئے بہت کم کوششیں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ آج ہم جس طرح کی زندگی (بودوباش) اختیار کئے ہوئے ہیں اسے برقرار رکھنے کے لئے 1.6گنا زیادہ زمین کے وسائل کی ضرورت ہے اور یہ وسائل قدرت کی جانب سے فراہم نہیں ہوں گے بلکہ انسانوں کو اگر اپنی بقا عزیز و مقصود ہے تو اِنہیں خود وسائل کو ترقی دینا ہوگی۔
المیہ ہے کہ کرہئ ارض پر رہنے والوں کا طرز زندگی ماحول دوست اور پائیدار نہیں اور یہ تباہی و بربادی کا باعث ہے جس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں زیادہ تیزی اور زیادہ تباہی کا باعث بن کر وقوع پذیر (رونما) ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق کرہئ ارض کے سطحی درجہئ حرارت میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے برف پگھل رہی ہے اور سمندر کی سطح بڑھ رہی ہے۔ پلاسٹک کے استعمال کی وجہ سے بھی ماحول کو خطرات لاحق ہیں جسے بنانے کے لئے ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کا اخراج ہوتا ہے اور یہ صورتحال کس قدر خطرناک ہے اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سات میں سے ساڑھے تین ارب عالمی آبادی ماحول کو لاحق خطرات سے دوچار ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم نے اپنی حالیہ ”عالمی رسک رپورٹ 2022ء“ میں ”ماحولیاتی تحفظ کے لئے اقدامات (جاری کوششوں) کی ناکامی“ کو بطور خاص موضوع بنایا ہے اور کہا ہے کہ دنیا کو ایسے طویل مدتی خطرات لاحق ہیں اور اگلے عشرے میں بھی ان کے ممکنہ طور پر شدید ترین اثرات ظاہر ہوں گے۔“
مضر ماحول (کاربن) گیسوں کے اخراج کی وجہ سے سطح ِزمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ ماحول کی اجتماعی کارکردگی کا ”سکور کارڈ“ ہے۔ یہی صورتحال برقرار رہی تو رواں صدی کے آخر تک زمین کے درجہ حرارت میں 2.7 سینٹی گریڈ کمی لانا ممکن نہیں ہوگا جبکہ سال 2030ء تک اِس درجہئ حرارت میں کم سے کم نصف کمی لانے کی ضرورت ہے لیکن اس بڑے پیمانے پر تبدیلی کے لئے مالی وسائل‘ ٹیکنالوجی اور ارادے (پختہ نیت) کی ضرورت ہے۔ دوسرے لفظوں میں دنیا کو اشتراک‘ تعاون اور اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے جن پر عالمی برادری نے پچاس سال قبل ’سٹاک ہوم‘ میں غوروخوض اور بات چیت کا آغاز کیا تھا لیکن بدقسمتی بات جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں کھڑی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں بیداری (عوامی شعور) میں اضافے کے باوجود گزشتہ پچاس سالوں کے دوران ”ماحولیاتی انصاف“ اور ”مشترکہ لیکن امتیازی ذمہ داریوں“ کے اصولوں کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے اور یہ بات اپنی جگہ لائق تشویش ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والوں وہی ممالک ہیں جنہیں ترقی یافتہ کہا جاتا ہے اور جن کی بڑی معیشتوں نے ماحول کو نقصان پہنچانے کے نام پر ترقی کی ہے اور اِب اِس ترقی کی قیمت دنیا کے ہر ملک کو زرعی پیداوار میں کمی اور معاشی خسارے میں اضافے کی صورت ادا کرنا پڑ رہی ہے! (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عابد قیوم سلیری۔ ترجمہ ابوالحسن امام)