بلوچستان کے ضلع شیرانی کے جنگلات میں لگنے والی حالیہ آگ سے لاکھوں دیودار اور زیتون کے درخت جل کر خاکستر ہو گئے‘ اس آگ نے دنیا کے سب سے بڑے پائن نٹ(چلغوزہ)اور ہزاروں ہیکٹر پر پھیلے جنگلی زیتون کے جنگلات کا تقریبا 40فیصد تباہ کر دیا‘آگ لگنے سے پرندوں اور جانوروں کی کئی اقسام ہلاک ہو گئیں‘ آگ پر مکمل طور پر قابو پانے میں فوج، مقامی انتظامیہ، ایف سی، مقامی رضاکاروں اور محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کو دو ہفتے سے زیادہ کا وقت لگا‘ آگ پر قابو پانے کی کوششوں کے باوجود ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ محکمہ جنگلات اور مقامی انتظامیہ اس طرح کی مسلسل اور بڑے پیمانے پر لگنے والی آگ سے نمٹنے کیلئے تیار نظر نہیں آئی‘آگ 9 کلومیٹر سے زائد علاقے میں پھیلی ہوئی تھی‘ آگ پر قابو پانے کی کوشش میں 3 افراد جان کی بازی ہار گئے اور متعدد زخمی ہوگئے۔ پائن نٹ پاکستان کے مہنگے ترین گری دار میوے میں سے ایک ہے جسے سردیوں کے موسم میں کھایا جاتا ہے۔ یہی نہیں جانوروں اور پرندوں کی مختلف اقسام بھی خطرے میں ہیں۔
یہ پہاڑی سلسلہ بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخوا صوبوں کو بھی ملاتا ہے اور یہ جنگل بہت سے مقامی باشندوں کیلئے ذریعہ معاش ہے۔ ان آگ کے نتیجے میں نہ صرف مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش ختم ہوا ہے بلکہ علاقے کا ماحولیاتی نظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو جنگلات کی بحالی کیلئے بڑے پیمانے پر شجر کاری مہم شروع کرنے کیلئے مناسب منصوبہ تیار کرنا چاہئے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بلوچستان کی وسیع اراضی کا صرف 1.4 فیصد جنگلات پر مشتمل ہے جو کہ قومی اوسط 4.8 فیصد سے بہت کم ہے۔ اب تک جنگلات کے رقبے کو بڑھانے کی کوئی حقیقی کوشش نہیں کی گئی۔ہمیں اس جنگلاتی علاقے کی بحالی کیلئے ایک مناسب منصوبہ بندی اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ جنگل کی ان آگ نے اس حقیقت کو واضح طور پر عیاں کر دیا ہے کہ ہم ایسی آفات سے نمٹنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اس طرح کی آگ بجھانے کیلئے ضروری جدید فائر فائٹنگ آلات، ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ انسانی وسائل کی کمی ہے۔
ایسا کیوں ہے کہ آگ پر قابو پانے کے لیے ہمیں ایران سے فائر فائٹنگ جیٹ ادھار لینا پڑا؟ہمیں جنگل کی آگ کے ابتدائی مراحل میں فائر فائٹنگ آپریشن شروع کرنے کے لیے محکمہ جنگلات کے اہلکاروں اور مقامی آبادی کو مکمل طور پر لیس اور تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان تمام اضلاع میں مقامی سطح پر جدید فائر فائٹنگ آلات فراہم کرنے چاہئیں جو اتنے بڑے جنگلات کی میزبانی کرتے ہیں۔جب شیرانی میں جنگل کی آگ جنگل کو جلا رہی تھی تو خیبرپختونخوا کی وادی تیراہ اور بونیر میں جنگل کی دو دیگر بڑی آگ بھڑک اٹھیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور خشک سالی جیسے حالات حالیہ عرصے میں جنگلات میں لگنے والی آگ میں اضافے کی بڑی وجہ معلوم ہوتے ہیں۔ ظالمانہ انسانی رویہ ایک اور وجہ ہے جو جنگل کی ان آگ کو بھڑکا رہی ہے۔اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کے پی میں 2018-19 میں جنگلات میں لگنے والی آگ کی وجہ سے 1.2 ملین سے زیادہ درخت ضائع ہوئے۔
سرکاری دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ 2015-16، 2016-17اور 2017-18 کے مقابلے 2018-19 میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ ان کے مطابق، 139 مقامات پر آگ لگنے سے 2018-19 میں کل 1,735.46 ہیکٹر رقبہ متاثر ہوا۔ اس کے برعکس، آگ نے 2015-16میں صرف 370 ہیکٹر کو متاثر کیا۔ اس کے بعد کے دو سالوں میں یہ تعداد بڑھ کر 1,414.2 ہیکٹر اور 2,793.2 ہیکٹر تک پہنچ گئی۔2021 میں جنگل میں لگنے والی دو بڑی آگ نے گلیات کے علاقے اور ضلع بونیر میں ہزاروں درختوں کو جلا دیا۔ گلیات کے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات معمول بن چکے ہیں اور متعلقہ محکمے کی عدم توجہی کے باعث ہر سال قیمتی درخت اور جنگلی حیات بڑی تعداد میں تباہ ہو جاتے ہیں۔جنگلات کی آگ کا مسئلہ انتہائی تشویشناک ہے اور حکومت کی طرف سے اس پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے، محکمہ جنگلات جنگلات میں لگنے والی آگ کے خطرے پر قابو پانے کیلئے حکمت عملی وضع کرنے میں ناکام رہا جس سے ہر سال ہزاروں درخت تباہ ہو جاتے ہیں۔ جنگلات میں لگنے والی آگ، غیر قانونی کٹائی، ایندھن اور چارکول کیلئے لکڑی کی زیادہ کٹائی اور ملک میں چھوٹے پیمانے پر کاشتکاری میں اضافے کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں ہیکٹر قیمتی جنگلات ضائع ہو جاتے ہیں‘اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگل کی آگ ہمارے جنگلات کیلئے تباہ کن ہے‘ اس کیساتھ ساتھ ٹمبر مافیا کی طرف سے ہر سال ہزاروں درختوں کی غیر قانونی کٹائی بھی بڑا مسئلہ ہے‘یہ غیر قانونی سرگرمی پرندوں اور جانوروں کو دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت پر مجبور کر رہی ہے‘ یہ ماحولیاتی نظام کو بگاڑ رہا ہے اور ماحول کو نقصان پہنچا رہا ہے‘یہ تمام عوامل پاکستان میں جنگلات کی کٹائی میں حصہ ڈال رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم اپنے قیمتی جنگلات کی حفاظت میں دونوں محاذوں پر ناکام ہو رہے ہیں۔
ہم نے حالیہ دنوں میں نہ صرف جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ دیکھا ہے بلکہ ٹمبر مافیا کی طرف سے غیر قانونی کٹائی کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے، جس میں جنگلات کی کٹائی ایک پریشان کن رفتار سے ہو رہی ہے۔پاکستان پہلے ہی جنگلات سے محروم ملک ہے کیونکہ اس کی صرف 4.8 فیصد زمین جنگلات سے ڈھکی ہوئی ہے‘ عالمی اوسط 31 فیصد ہے‘ یہاں تک کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی 24فیصد، 14فیصد اور 34فیصد زمین جنگلات اور پودوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ہمیں گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے اور ماحولیاتی انحطاط کے عمل کو کم کرنے کیلئے جنگلات کے رقبے کو بڑھانے کی ضرورت ہے‘ پاکستان میں 4.2ملین ہیکٹر جنگلات ہیں اور درخت لگائے گئے ہیں‘یعنی صرف 0.05ہیکٹر جنگلات فی کس عالمی اوسط 1.0 ہیکٹر کے مقابلے میں‘ یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔(بشکریہ د ی نیوز، تحریر: خالد بھٹی، ترجمہ:ابوالحسن امام)