حکومت نے وفاقی اور صوبائی سطح پر ایندھن کے استعمال میں 30 فیصد تک کٹوتی کرنے کا اعلان کیا ہے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ناکافی ہے کیونکہ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کا 80 فیصد درآمد کرتا ہے۔ جب بھی آپ اپنی موٹر سائیکل، گاڑی یا پھر گھر میں برقی آلات استعمال کرتے ہیں تو اس کے عوض دراصل ہم ڈالر ضائع کررہے ہوتے ہیں۔ ہمیں توانائی کی بچت کرنا ہوگی اور اس بچت میں حکومتی اور انفرادی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔بجلی کی بچت کے حوالے سے کے الیکٹرک کی چیف مارکیٹنگ آفیسر سعدیہ دادا کا کہنا ہے کہ ایک سال کی قلیل مدت میں ایندھن کی قیمت تیزی سے بڑھی ہے جبکہ کے الیکٹرک کو مقامی گیس دستیاب نہیں ہے۔ آر ایل این جی کی قیمت 1500 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو سے بڑھ کر 4700 روپے ہوگئی ہے اور فرنس آئل کی قیمت 135 فیصد بڑھی ہے۔ کراچی شہر کے لیے آئندہ مہینوں میں بیس ٹیرف کے علاوہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں 10 سے 12 روپے کا اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ کے الیکٹرک کو وہ مقامی گیس نہیں مل رہی جو درآمدی گیس سے 3 گنا سستی ہے۔ اس لیے صارفین کو چاہیے کہ وہ بجلی کے استعمال میں کمی کریں۔
اگر صارف بجلی کی 20 سے 25 فیصد بچت کرے تو اس کا ماہانہ بل گزشتہ سال کے بجلی کے بل کے قریب قریب رہنے کا امکان ہے۔ اس کے لیے صارفین کو اپنی قومی ذمہ داری سمجھ کر برقی آلات کے استعمال میں احتیاط برتنا ہوگی۔پاکستان انیشیٹو آن انرجی نے بجلی کی بچت سے متعلق تجویز پیش کی ہے کہ بجلی کے 200 یونٹ اور زائد استعمال کرنے والوں سے فوری سبسڈی ختم کی جائے جس سے گھاٹے میں کمی ہوگی۔ اس کے علاوہ صنعتی اور غیر صنعتی فیڈرز کو الگ کیا جائے اور صنعتی فیڈرز پر بجلی کی فراہمی کو ترجیح دی جائے۔ ایندھن کے ذخائر کی ہر وقت مانیٹرنگ کا طریقہ کار وضع کیا جائے اور توانائی کی بچت کے حوالے سے حکومت ذرائع ابلاغ کے ذریعے آگاہی مہم چلائے۔پاکستان کا توانائی کے حوالے سے تاریخی جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ 1960 کی دہائی میں دریافت ہونے والی سوئی گیس اور 1980 کی دہائی میں بنائے جانے والے ڈیمز کی وجہ سے پاکستان 3 دہائیوں تک توانائی کے شعبے میں خود کفیل رہا۔ 1990 کی دہائی میں آبادی بڑھنے اور صنعتی اور تجارتی مراکز قائم ہونے کی وجہ سے ملک میں ایندھن کی طلب بڑھ گئی جس کے لیے فوری طور پر مقامی وسائل کو بڑھانے کے بجائے درآمدی ایندھن پر انحصار کو بڑھایا گیا۔
پاکستان میں کوئلے کے بڑے ذخائر موجود ہیں جن کا تخمینہ 186 ارب ٹن لگایا گیا ہے۔ اس میں سے 185 ارب ٹن کوئلہ سندھ میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں 45 کروڑ 87 لاکھ ٹن، پنجاب میں 23 کروڑ 50 لاکھ ٹن، خیبرپختونخوا میں 12 کروڑ 29 لاکھ ٹن اور کشمیر میں 87 لاکھ ٹن معدنی کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔پاکستان میں کوئلے کے ذخائر کی وجہ سے صوبہ سندھ سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ طویل عرصے کی سوچ بچار کے بعد سندھ حکومت نے نجی شعبے کے اشتراک سے تھر کے کوئلے کو نکالنا شروع کیا ہے اور اب اس سے بجلی کی پیداوار بھی شروع ہوگئی ہے۔ اگر درآمدی کوئلے سے بجلی کا ایک یونٹ 35 روپے میں بنتا ہے کہ تو مقامی کوئلے سے یہی یونٹ 13 روپے میں دستیاب ہوگا یعنی فی یونٹ 22 روپے کی بچت ہوگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ مقامی کوئلے کو استعمال میں لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
تھر کے کوئلے کو سپلائی چین سے منسلک کیا جانا چاہیے جس کے لیے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت ایک ریلوے لائن کا منصوبہ زیرِ غور ہے۔ اس سے یہ کوئلہ ناصرف کراچی بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں باآسانی پہنچایا جاسکے گا۔ اس ریلوے لائن کے قیام سے تھر کا کوئلہ بجلی بنانے کے علاوہ سیمنٹ اور اسٹیل فیکٹریوں میں بھی استعمال ہوسکے گا۔ تھر کے کوئلے کے ذخائر کو ناصرف براہِ راست ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے بلکہ پراسیس کرکے اس کو مختلف ایندھن جیسے کہ کول بیسڈ گیس اور ڈیزل میں بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے تھر میں پیٹرو کیمیکلز انڈسٹری قائم کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کو تیل و گیس کے شعبے میں تیزی سے گرتے ہوئے مقامی ذخائر کا سامنا ہے پاکستان کے سیسمک ایریا کا رقبہ 8 لاکھ 27 ہزار مربع کلومیٹر ہے جس میں سے اب تک صرف 20 فیصد میں تیل و گیس کی تلاش کا کام ہوا ہے۔تیل و گیس کے مقامی وسائل کو بڑھانے کے لیے حکومت کو تلاش کے زیادہ سے زیادہ منصوبے شروع کرنا ہوں گے۔
پاکستان کی وزارتِ توانائی کے مطابق ملک میں سیال ایندھن کے معلوم ذخائر کی مقدار 56 کروڑ 80 لاکھ بیرل ہے اور یہ 17 سال تک نکالے جاسکتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ گیس کے 21.45 ہزار ارب کیوبک فٹ کے معلوم ذخائر ہیں جو 14 سال تک پیداوار دے سکیں گے۔ملک میں سمندر میں تیل و گیس کی تلاش کیلئے 2 لاکھ 50 ہزار مربع کلومیٹر کا رقبہ دستیاب ہے۔ اب تک سمندر میں صرف 18 کنوں کی کھدائی کی کوشش ہوئی ہے جو سب ناکام رہیں تاہم سروے اس بات کو ظاہر کررہے ہیں کہ پاکستان کی سمندری حدود میں بڑے پیمانے پر گیس اور تیل کے ذخائر موجود ہیں۔اس کے علاوہ دنیا میں گیس اور تیل کی تلاش کے لیے ٹائٹ اور شیل کے نام سے 2نئی ٹیکنالوجیاں بھی متعارف ہوئی ہیں اور امریکہ نے انہیں بڑے پیمانے پر استعمال کرکے خود کو گیس کی پیداوار میں خود کفیل کرلیا ہے۔(بشکریہ ڈان،تحریر: کامران راجہ،ترجمہ: ابوالحسن امام)