معاشی مسائل: پیش گوئی

 پاکستان کو اِس وقت جن ’معاشی مسائل‘ کا سامنا ہے وہ تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کو درپیش مسائل سے ملتے جلتے ہیں۔ سال دوہزارانیس میں زرمبادلہ کے کم ذخائر اور زیادہ خسارے کے باعث ’پی ٹی آئی‘ حکومت گزشتہ مسلم لیگ نواز حکومت کی جانب سے چھوڑی گئی چھ فیصد نمو کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی تھی۔ اس وقت سبکدوش ہونے والی حکومت نے ’پی ٹی آئی‘ پر تنقید کی تھی کہ اس نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ طے کرتے ہوئے ترقی کو روک دیا ہے۔ اب اسی اقتصادی ٹیم کے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد کیا مخلوط حکومت جی ڈی پی کی نمو پر سمجھوتہ کئے بغیر معیشت کو صحیح سمت میں لے جا سکے گی؟ معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے حکومت نے ایندھن کی سبسڈی ختم کر دی جو آئی ایم ایف پروگرام کے تسلسل کے لئے ناگزیر ہے تاہم عوامی ردعمل کے خوف سے موجودہ حکومت نے یہ غیر مقبول فیصلہ لینے میں چھ ہفتے ضائع کر دیئے۔ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کی اس غیر فیصلہ کن صورتحال کے نتیجے میں قومی خزانے کو ڈیڑھ سو ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا اسکے بعد موڈیز نے پاکستان کے معاشی نقطہ نظر کو ’منفی‘ میں تبدیل کردیا۔ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ نیپرا نے بجلی کے مین ٹیرف میں 7.91 روپے اضافے جبکہ اوگرا نے یکم جولائی سے گیس کی قیمتوں میں پینتالیس فیصد اضافے کی منظوری دی ہے۔ مالیاتی سختی اور گرتے ہوئے روپے کے ساتھ یہ اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ معیشت سکڑ رہی ہے تاہم بڑا سوال یہ ہے کہ کیا مالی سال 2023ء میں سست روی اتنی ہی خراب ہوگی جتنی مالی سال 2019ء میں تھی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کچھ اہم معاشی اشاریئے جیسے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور غیر ملکی ذخائر کم و بیش مالی سال 2019ء کے برابر ہیں لیکن روس یوکرائن تنازعہ کے نتیجے میں اشیا کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے اس بار عالمی اقتصادی صورتحال زیادہ چیلنجنگ ہے۔سال دوہزاراٹھارہ میں جب پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالی تو اسٹیٹ بینک کے ذخائر نو ارب ڈالر کے تھے جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بیس ارب ڈالر تھا۔ اسٹیٹ بینک کے ذخائر اب ساڑھے نو ارب ڈالر پر ہیں جس میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سولہ ارب ڈالر ہونے کا امکان ہے اگرچہ مسلم لیگ (نواز) کی قیادت والی مخلوط حکومت نے غیر ضروری درآمدات پر پابندی لگانے جیسے اقدامات کئے ہیں لیکن خام تیل‘ پام آئل‘ آر ایل این جی‘ کوئلہ اور گندم جیسی ضروری درآمدی اشیا کی اونچی قیمتوں سے درآمدی بل پر مزید دباؤ بڑھتا رہے گا جس کے نتیجے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہونیکی بجائے زیادہ ہوگا‘ماضی میں حکومتوں نے ترقی کے لئے پی ایس ڈی پی مختص کرنے پر بہت زیادہ انحصار کیا ہے لیکن مالی خسارے پر قابو پانے کیلئے اصلاحی اقدامات انہیں اس بجٹ میں یہ آزادی نہیں دے سکتے ہیں (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رابعہ شہزاد۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)