اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو موجودہ خرابی سے نکلنے کیلئے فوری معاشی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو دیگر وجوہات کے علاوہ سیاسی بدانتظامی کی وجہ سے سامنے آئی ہے۔ اس معاشی ہنگامی صورتحال میں سیاسی اتفاق رائے اور فوری بنیاد پر معاشی حل کی ضرورت ہے۔ ملک میں سیاسی اور معاشی پیشرفت ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے اور اکثر اوقات ملک کو مستحکم کرنے یا کسی اور طرح سے ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ پاکستان کے معاملے میں سیاسی استحکام ہمیشہ ہی سے مسئلہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف کے ساتھ مرحومہ بے نظیر بھٹو نے جمہوریت کے منشور پر دستخط کئے لیکن پاکستان میں سیاسی استحکام اب بھی ”دور کا خواب“ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سیاسی استحکام اور نتیجتاً معاشی خوشحالی کے لئے تمام اداروں میں اور ان کے درمیان ایک مکالمے کی بات کر رہے ہیں۔ اگر ہم دنیا کی تاریخ اور معاشی طور پر ترقی کرنے والے ممالک پر نظر ڈالیں تو ایک بات مشترک ہے کہ ایک مستحکم سیاسی نظام۔ وہ تمام ممالک جو سیاسی عدم استحکام کا شکار رہے ہیں معاشی طور پر ترقی نہیں کر سکے۔ یورپ‘ امریکہ‘ کینیڈا یا یہاں تک کہ روس اور چین کی مثال لیجئے اِن سب کا سیاسی نظام مستحکم تھا۔ کم ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی اتفاق رائے اور مضبوط سیاسی نظام کا فقدان ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ترقی نہیں کر سکے۔ پاکستان کو ترقی کیلئے سیاسی استحکام اور اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ معیشت کے منشور کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے جمہوریت کا منشور زیادہ اہم ہے۔ کسی بھی ملک کا سیاسی نظام ترقیاتی ٹرین کی ریڑھ کی ہڈی اور انجن ہوتا ہے لہٰذا جمہوریت کا منشور معیشت کے منشور کی قیادت کرے گا۔ اس حقیقت کو ہماری قوم کو معاشی طور پر ترقی اور ترقی کیلئے سمجھنا ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان قرضوں اور قرضوں کی ادائیگی کے زیادہ حجم کے ساتھ ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ اور تجارتی خسارے کا بُری طرح شکار ہے۔
سرکلر قرض ایک اور سردرد ہے۔ کرنسی کی قدر میں بھی کمی ہے اور ہمارے غیر ملکی ذخائر دن بدن کم ہو رہے ہیں۔ افراط زر اور قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے غریبوں کی حالت بدحال ہے۔ تو معیشت کے منشور کے لئے کیا کرنا ہوگا؟ اگر ہم دنیا میں عزت اور احترام کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو معیشت کو ہر قیمت پر بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا آئین پاکستان کے تمام خطوں میں مساوی اور منصفانہ ترقی کو یقینی بناتا ہے۔ یہ کامل سماجی معاہدہ ہے لیکن اسے ایک سے زیادہ بار بے عزت کیا گیا ہے‘ جو ہمارے معاشی زوال کی بنیادی وجہ ہے۔ بین الاقوامی قرضوں سے نجات کیلئے معیشت کی بحالی‘ صنعتکاری‘ کارپوریٹائزیشن اور قرضوں کے انتظام کے نظام کیلئے کم از کم بیس سالہ روڈ میپ ہونا چاہئے۔ نظام کو مطلوبہ استحکام اور تسلسل فراہم کرنے کیلئے سیاسی مکالمہ ضروری ہے۔پاکستان کے معاملے میں فوری طور پر عوام اور ریاست پاکستان کی ضروریات کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سلامتی کے تصور پر مکمل نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ ریاست کو ناقابل تسخیر سلامتی کو یقینی بنایا جاسکے۔ یہ صرف مضبوط اور مستحکم سیاسی نظام ہے جو فراہم کر سکتا ہے۔ یہ پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ جمہوری دنیا میں مضبوط جمہوری ادارے معاملات سے کہیں بہتر طریقے سے نمٹتے ہیں اور جمہوریت و جمہوری اقدار جمہوری دنیا میں پھلتی پھولتی معیشت کی حمایت اور سہولت فراہم کرتی ہیں۔
پاکستان کی معیشت کی بحالی ضروری ہے لہٰذا ہمیں تمام سیاسی جماعتوں سمیت سب کے اتفاق رائے اور رضامندی کا نظام تیار کرنا ہوگا۔ واضح ہے کہ ہم امریکہ جیسی جنگی معیشت نہیں ہیں اور نہ ہی روس جیسی تیل کی معیشت ہیں لہٰذا ہمیں پھلنے پھولنے کیلئے اپنے وسائل پر انحصار کرنا ہوگا۔ ہمارا جغرافیائی محل وقوع اور جغرافیائی اقتصادی طاقت ہمارا اثاثہ ہے اور اگر اسے بہترین طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ ہماری معاشی بحالی کے لئے تزویراتی ثابت ہوسکتا ہے۔ معیشت کے چارٹر کے ممکنہ خدوخال میں ایس ای زیڈ جیسے صنعتی جھرمٹ بنا کر صنعتکاری کو فروغ دینا‘ ایف ڈی آئی کے بڑے حجم کو راغب کرنے والی جارحانہ نجکاری کا انتخاب‘ برآمدی اہداف میں اضافہ‘ غیرملکی ترسیلات زر کو چینل کرنا‘ زراعت اور زرعی کاروباروں کو فروغ دینا‘ خدمات کے شعبوں کو معیشت بنانا اور انسانی ترقی میں سرمایہ کاری شامل ہو سکتی ہے۔ تعلیم‘ خاص طور پر تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم‘ سب سے زیادہ اہم ہے اور اسے دس برس میں سوفیصد شرح خواندگی حاصل کرنے کے لئے ترجیح دی جانی چاہئے۔ بنیادی صحت کی دیکھ بھال ایک اور نظر انداز شعبہ ہے جسے ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ انسانی ترقیاتی اشاریہ میں ہماری درجہ بندی کو قومی ترجیح اور فرض کے طور پر پائیدار اہداف کے حصول کے لئے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اس نیک مقصد کے لئے عالمی وسائل کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈینگ ژیاؤ پنگ کے چینی اقتصادی ماڈل کو ایک رہنما اور معاشی ترقی کے اعلی راستے کے خواب کو حاصل کرنے کے لئے آگے بڑھنے کے راستے کے طور پر اپنایا جاسکتا ہے۔پاکستان کو اپنے وسائل کی نئی تعریف اور تشکیل نو کے ساتھ معاشی ترقی کیلئے مراعات کے ذریعے معیشت بہتر بنانے کیلئے اقتصادی تبدیلی پالیسی فریم ورک کی ضرورت ہے۔ یہ پالیسی فریم ورک سماجی اور انسانی سرمائے کے اشاریوں کو بہتر بنا کر پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کیلئے ضروری ہے۔ میکرو اکنامک ٹرانسفارمیشن فریم ورک سرمایہ کاری کو فروغ دینے‘ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ‘ بنیادی ڈھانچے کی ترقی‘ بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ‘ برآمدات میں اضافہ‘ توانائی اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانے جیسے کچھ اہم اقدامات کے گرد گھومے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے سماجی تانے بانے کی تبدیلی کے حصے کے طور پر خواتین کو بااختیار بنانے پر زیادہ زور دے کر سماجی اور انسانی سرمائے کو زیادہ اہمیت اور ترجیح دی جائے جو پائیدار معاشی ترقی کی بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ مستقبل کے لئے معاشی ماڈل کی وضاحت کرنے والی ایک طویل مدتی منصوبہ بندی دستاویز کی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ اگلے بیس تیس برس میں پاکستان کہاں ہونا چاہئے۔ (مضمون نگار سابق وفاقی سیکرٹری ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: حسن بیگ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)