امریکہ چین رسہ کشی

امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی کی ایک وجہ ”تائیوان کا مسئلہ“ بھی ہے‘ رواں ماہ سنگاپور میں شنگری لا ڈائیلاگ سیکورٹی سربراہ اجلاس کے موقع پر چینی وزیر دفاع وی فینگھے اور ان کے امریکی ہم منصب لائیڈ آسٹن کے درمیان تقریبا ایک گھنٹہ جاری رہنے والی ملاقات کے دوران بیجنگ نے زور دے کر کہا کہ وہ تائیوان کی آزادی کیلئے کسی بھی حد تک جائے گا اور اگر ضرورت پڑی تو ”جنگ شروع کرنے سے بھی نہیں ہچکچائے گا۔“ یہ ایک نہایت ہی واضح پیغام ہے اور چین کے متوقع و دیرینہ مؤقف کا بیان ہے۔ چینی وزیر دفاع نے اپنے امریکی ہم منصب کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی تائیوان کو چین سے الگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو چینی فوج یقینی طور پر جنگ شروع کرنے سے دریغ نہیں کرے گی چاہے اس کی قیمت کچھ بھی ہو‘ تاہم جنگجو لہجے کے باوجود آسٹن کیساتھ بات چیت خوشگوار ماحول میں ہوئی‘ وی فینگھے نے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ چین ایک اُبھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے جس کے بارے میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ امریکہ سے آگے نکل جائے گا حالانکہ امریکہ میں بہت سے لوگ اس کے برعکس یقین رکھتے ہیں۔ایک اعشاریہ چار ارب سے زائد افراد کے ساتھ‘ جو عالمی آبادی کا تقریبا اُنیس فیصد ہے‘ چین دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ کل رقبہ پچانوے لاکھ چھیانوے ہزار نو سو ساٹھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جو پانچ جغرافیائی ٹائم زونز پر محیط ہے اور چودہ مختلف ممالک کے ساتھ چین کی سرحدیں متصل ہیں۔ چین روس‘ کینیڈا اور امریکہ کے بعد دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ دانشمندانہ پالیسیوں اور بروقت اصلاحات اور سستی مزدوری (افرادی قوت) کی فراہمی نے چین کو واقعی ’عالمی فیکٹری‘ میں تبدیل کر دیا ہے لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ چین امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے اور دنیا کا سب سے بڑا تجارتی ملک بھی ہے۔ چین 124ممالک کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بھی ہے جبکہ امریکہ 56ممالک کا تجارتی شراکت دار ہے۔

چین کے پاس دنیا کے سب سے بڑے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں اور وہ دنیا کا سرکردہ برآمد کنندہ‘ مینوفیکچرر‘ توانائی صارفین اور آٹو مارکیٹ بھی ہے۔ یہ سٹیل‘ سیمنٹ اور تانبے کا دنیا کا سب سے بڑا صارف بھی ہے۔ ان تمام اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے کیا چین امریکہ کو چیلنج کر سکتا ہے اور اسے پیچھے چھوڑ سکتا ہے؟ یہ امریکی پالیسی حلقوں میں سب سے دلچسپ اور سب سے زیادہ بحث کرنے والے موضوعات میں سے ایک ہے۔ چین کے ممتاز سکالر ڈیوڈ شمبوگ نے ”چائنا گوز گلوبل: دی جزوی طاقت“ کے عنوان سے اپنی کتاب میں چین کے عالمی ظہور کا جامع جائزہ لیا ہے اور اس امکان کو ختم کردیا ہے کہ چین امریکہ یا اس کے مغربی اتحادیوں کو چیلنج کرنے کیلئے جلد ہی افق پر آجائے گا‘ ان کا مؤقف ہے کہ چین عالمی طاقت نہیں جیسا کہ روایتی طور پر خیال کیا جاتا ہے‘ اُنہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ چین ایک جزوی طاقت ہے جس کا عالمی سیاسی‘ اقتصادی‘ فوجی اور ثقافتی شعبوں میں اثر و رسوخ بہت کم ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ عالمی اقتصادی اور سیاسی اداروں میں عالمی سطح پر جانے اور مغربی غلبے کو چیلنج کرنے کے معاملے میں بیجنگ واشنگٹن سے بہت پیچھے ہے‘ شمبوگ کی بنیادی دلیل کا خلاصہ ان الفاظ میں کیا جا سکتا ہے کہ ”چین کی عالمی طاقت کے عناصر دراصل حیرت انگیز طور پر کمزور اور بہت ناہموار ہیں۔ چین اہم نہیں اور یہ یقینا اتنا بااثر بھی نہیں ہے جتنا روایتی طور پر سمجھا جاتا ہے۔“ کیا رواں صدی چین کی صدی ہے؟ تجزیہ کار پروفیسر بیکلی کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران گلوبلائزیشن اور امریکی بالادستی کے بوجھ میں نمایاں توسیع ہوئی ہے۔ اس کے باوجود امریکہ کے اثرورسوخ میں کوئی کمی نہیں آئی‘ درحقیقت اب یہ 1991ء کے چین کے مقابلے میں زیادہ دولت مند‘ زیادہ اختراعی اور فوجی طور پر زیادہ طاقتور ہے۔

بیکلی نے 2018ء میں اپنی کتاب ”بے مثل: امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور کیوں رہے گا“ میں دلیل دی ہے کہ ”امریکہ کے پاس کسی بھی دوسری قوم کی دولت اور فوجی صلاحیتوں سے دوگنا سے زیادہ ہے۔“ وہ دنیا آٹھ طاقتور ترین ممالک امریکہ‘ چین‘ روس‘ جاپان‘ جرمنی‘ برطانیہ‘ فرانس اور بھارت کے مستقبل کے امکانات کا جائزہ لینے کے لئے مختلف اشاریے استعمال کرتا ہے۔ جغرافیہ کے لحاظ سے امریکہ ایک قدرتی اقتصادی مرکز اور فوجی قلعہ ہے۔ اس کے پاس قدرتی وسائل کا بے پناہ ذخیرہ ہے۔ باقی دنیا کے مقابلے میں زیادہ قدرتی نقل و حمل کا بنیادی ڈھانچہ ہے اور اس کے ارد گرد ’دوست اور مچھلی  ہیں جبکہ دیگر تمام بڑی طاقتیں طاقتور حریفوں سے متصل ہیں۔ اسی طرح اداروں اور ڈیموگرافی کے حوالے سے امریکہ اپنے تمام حریفوں اور اتحادیوں سے آگے ہے کیونکہ اس کی آبادی ”سب سے زیادہ پیداواری آبادی ہے اور اس صدی کے دوران اس کی کام کرنے کی عمر کی آبادی اپنے حریفوں کی آبادی کے برعکس بڑھنے والی ہے۔“ امریکہ کے برعکس مصنف کا مؤقف ہے کہ ایک چائلڈ پالیسی نے بیجنگ کیلئے ایک آبادیاتی ڈراؤنا خواب پیدا کیا ہے۔ اپنے جامع تجزیے کی بنیاد پر بیکلی چین اور امریکی زوال کے عروج کے حوالے سے ’زوال پسند‘ کے قائم کردہ بیانیے کو مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کئی دہائیوں تک اور غالبا اس صدی کے دوران دنیا کی واحد سپر پاور رہے گا۔ ہم سرد جنگ کے بعد کے عبوری دور میں نہیں رہ رہے ہیں۔“ رش دوشی (Rush Doshi) نے سال 2021ء میں اپنی کتاب ”دی لانگ گیم: چائناز گرینڈ اسٹریٹجی ٹو میسیوز امریکن آرڈر“ میں کچھ اسی طرح کے دلائل پیش کئے ہیں۔ دوشی کا دعویٰ ہے کہ چین نے ”بے گھر“ ہونے کی ایک عظیم حکمت عملی اپنائی ہے جو امریکی بالادستی کو بے گھر کرنے اور چین کو عالمی سیاست کے مرکز میں منتقل کرنے کی طرف مائل کرتی پرعزم حکمت عملی ہے۔ وہ چین کی سہ رخی حکمت عملی کو ”تعمیر اور توسیع“ قرار دیتے ہیں جس سے ان کا مطلب امریکی بالادستی کے اہم ستون کو کمزور کرنے پر مرکوز نقطہ نظر ہے۔ امریکہ کے کنٹرول سے باہر اپنے علاقائی اداروں کی تعمیر اور امریکہ کو بے گھر کرنا جبکہ ایک نئی عالمی بالادستی کے اُبھرنے کیلئے اپنی نرم اور سخت طاقت کو وسعت دینا  چین کی بنیادی پالیسی کے اہم عناصر ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر مراد علی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)