مقروض معیشت کے دُکھ

یہ سال کا وہ وقت ہے جب ہر جگہ مالیاتی ہدف‘ آمدن‘ بڑے پیمانے پر (صنعتی) پیداواری سرگرمیاں‘ محصولات (ٹیکسز) اور معاشی بنیادوں (بیس لائنز) کی باتیں ہورہی ہوتی ہیں۔ ٹیلی ویژن سٹوڈیوز‘ ٹاک شو اور ڈرائنگ رومز کی فضا میں اربوں اور کھربوں کے اعدادوشمار کی گونج ہوتی ہے اور ان اعدادوشمار (معاشی فیصلوں) کی اہمیت پر بحث ہورہی ہوتی ہے۔ ہر فریق کے پاس اپنے اعداد و شمار ہوتے ہیں‘ اپنی تشریح ہوتی ہے‘ اپنی پالیسیوں اور دوسروں کے جھوٹا ہونے پر یقین تاہم ان سب چیزوں کے درمیان ایک ہنگامی کیفیت کا احساس بھی ہے۔ ہمیں اب خود کو درپیش بحران کا احساس ہورہا ہے اور اس مرتبہ یہ احساس بس ایک خیال نہیں ہے۔اس وقت حکومت میں موجود جماعتیں خود کو حکومت چلانے کا اہل ثابت کرنے کی پوری کوشش کررہی ہیں تو دوسری جانب حکومت سے باہر موجود جماعت  کی جانب سے ممکنہ بحران کی جو منظر کشی کی جارہی ہے اسے مبالغہ سمجھا جارہا ہے۔ یہ  مؤخر ادائیگی پر تیل ملنا اور قرض کی مدت میں اضافہ کوئی نئی بات نہیں ہے تو  پھریہ چیز ہمیں اپنے بارے میں کیا بتاتی ہے؟

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات پر بھی اب بہت زیادہ بات ہونے لگی ہے۔ وہ وقت گیا جب صرف امیر کاروباری حضرات اور بزنس رپورٹر ہی آئی ایم ایف کی جانب سے عائد شرائط پر طویل بحث کرتے تھے۔ اب تو ہم سب اس بحث میں شامل ہوچکے ہیں جو عام طور پر سیاسی جماعتوں کے اختلافات پر بات کررہے ہوتے تھے۔ اس کا نتیجہ ٹیکسوں کے حوالے سے شرائط‘ توانائی کے شعبے اور چینی قرضوں کے حوالے سے ایک نہ ختم ہونے والی (اور غیر نتیجہ خیز) بحث ہوتی ہے۔ ہم اس بات پر غور نہیں کرتے ہیں کہ آخر آئی ایم ایف کی شرائط ماضی کے برعکس اب اتنا بڑا مسئلہ کیوں بن گئی ہیں حقیقت یہ ہے کہ  آئی ایم ایف ہم سے تھک چکا ہے اور پھر ہم بار بار آئی ایم ایف کے پاس جاتے رہیں۔ پھر امریکہ بھی اس حوالے سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا کہ وہ ’آئی ایم ایف‘ کو پاکستان کے ساتھ تعاون پر قائل کرے۔ تو ان سب باتوں کا نتیجہ کیا ہے؟

نتیجہ یہ ہے کہ لوگ مستقبل میں آنے والی مشکلات کے بارے میں آگاہ نہیں ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس کا احساس رکھتے ہیں لیکن وہ اپنی جماعت کی قیادت کے سامنے اسے بیان کرنے سے قاصر ہیں اسی طرح ہم مشکل فیصلوں کے بارے باتیں تو کرتے رہتے ہیں لیکن وہ فیصلے لئے نہیں جاتے۔ پھر برآمدات پر بھی ہماری توجہ کچھ اسی طرح کی ہے۔ دیگر معاملات‘ خاص طور پر ہمارے اخراجات بھی عجیب طرح کے ہیں۔ ہم نجکاری کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن آخری مرتبہ ہم نے جنرل مشرف کے دور میں کسی بڑے ادارے کی نجکاری کی تھی۔ اس کے بعد سے کیا ہوا؟ ہمیں اس حوالے سے کس کا انتظار ہے؟ ایک طرف ہم میثاق معیشت کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں تو وہیں اس حوالے سے عملی اقدامات کی طرف مشکل سے پیش رفت ہورہی ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: عارفہ نور۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)