سیکھنے کا خیال وقت کی طرح پرانا ہے۔ اس کے باوجود ہم اساتذہ کو تدریس اور سیکھنے کو تبدیل کرنے کیلئے درکار صلاحیتوں اور مہارتوں کو فروغ دینے کے لئے بااختیار بنانے کے لئے ہر روز جدوجہد کرتے ہیں۔ بہت سے اساتذہ مسلسل ترقی‘ اختیارات کی کمی‘ انعام اور اپنی خدمات کے تسلیم نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں اگرچہ ان کے یہ مطالبات مثالی و تصوراتی دنیا کے عکاس ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان مثالی ملک نہیں ہے۔ ضروری نہیں کہ اساتذہ کے سبھی مطالبات جائز ہوں تاہم یہ بات طے ہے کہ اساتذہ کو بااختیار بنا کر اِن کی کارکردگی کا معیار بلند (بہتر) کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں جس نظام تعلیم سے اساتذہ تیار ہو کر عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں اُس میں ہنرمندی اور تربیت کا فقدان پایا جاتا ہے اور نصاب تعلیم بھی جامع و مستقل نہیں ہے۔
اساتذہ کو بااختیار بنانے کا تصور کثیر الجہتی اور کثیر السطحی ہے۔ اگر کسی ہدف کو حاصل کرنے کیلئے اُس کی جزئیات پر توجہ نہ دی جائے تو خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ حکومت کی جانب سے درس و تدریس کے عمل کو وقتی اقدامات (ایڈہاک پالیسیوں) سے بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے جیسا کہ اساتذہ کی ان سیٹ (ان سروس) تربیت کا وقتاً فوقتاً انتظام کیا جاتا ہے لیکن اِس سے خاطرخواہ ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ بدقسمتی سے‘ کسی ویژن یا حکمت عملی کے بغیر نصابی مواد کی فراہمی‘ خاص طور پر مالی وسائل کی کمی سے پیدا ہونے والے مسائل اور اساتذہ پر مختلف قسم کی پابندیوں کی وجہ سے وہ بااختیار نہیں اور اِس سے اُن کی کارکردگی و صلاحیت محدود دکھائی دے رہی ہے۔
اِس سلسلے میں ایک منظم و فعال حکمت عملی نہ صرف ضروری ہے بلکہ طلبہ کے مستقبل کیلئے بھی اہم ہے تاہم یہ سفر مشکلات بھرا ہو سکتا ہے کیونکہ ہم کوئی بھی عمارت بنا اُس کی بنیاد رکھے کھڑی نہیں کر سکتے بالکل اِسی طرح اساتذہ کی کارکردگی بھی بہتر بنانے کیلئے بنیاد رکھنے سے محنت کا آغاز کرنا پڑے گا۔ پاکستان کے تعلیمی نظام میں‘ اس کا مطلب اہلیت اور کلیدی صلاحیتوں کے حامل افراد کی اہمیت کو تسلیم کرنا اور اساتذہ کو ان کی ضروریات کے مطابق خدمات پیش کرنے کے لئے تربیت کے مواقع ازخود (اپنی مرضی کے مطابق) بنانے کی طرف مائل (راغب) کرنا ہوگا۔
کسی تعلیمی ادارے میں اساتذہ پر مشتمل ’عملے (فیکلٹی)‘ کو بااختیار بنانے کے بنیادی طور پر تین فوری اور موثر طریقے ہیں۔ ارادے اور عزم کا اظہار۔ درس و تدریسی عمل جس میں جدید علوم کو حاصل کرنا اور ذاتی ملازمتی مفادات سے بالاتر ہو کر درس و تدریس اور طلبہ کی تربیت جیسی ضروریات کو اچھی طرح پورا کرنا سب سے واضح مقصد مختصر اور درمیانی مدت کے اہداف کا تعین ہے اور اس بات کی نگرانی کرنا ہے کہ اساتذہ انہیں کیسے پورا یا حاصل کرتے ہیں۔ وہ اپنے لئے اہداف طے کرنے میں کتنی اچھی طرح مشغول ہیں؟ وہ طلبہ کی تعلیم کی ذمہ داری لینے کے لئے کتنے گرمجوش ہیں؟ ایک اور اہم عنصر اساتذہ کی علمی و فنی مہارتوں کا بھی ہے جسے اپ گریڈ کرنے کے لئے ان کی آمادگی اور طلب کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا اساتذہ اپنی تعلیم کی ضرورت خود محسوس کرتے ہیں اور کیا اساتذہ اپنی تربیتی خامیوں پر قابو پانے کے لئے ازخود کوشش کرتے ہیں؟ اساتذہ کو بااختیار بنانے کا ایک اور پیمانہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی ادارے کے اندر عمودی نمو اور پانچ سال کی مدت کے دوران انہیں قائدانہ کرداروں کے قابل بنایا جائے۔
اگر واضح توقعات کی طرح یکساں مواقع بھی پیدا کئے جائیں تو اساتذہ بغیر کسی رکاوٹ کے آگے بڑھ سکتے ہیں اور اپنی خدمات میں بہتری کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر‘ کسی پرائمری سکول میں ریاضی کا معلم اگر طلبہ میں سوال و جواب جیسی تنقیدی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکتا ہے اور انہیں تبادلہئ خیال مزید گہرائی سے مشغول ہونے پر قائل کر سکتا ہے تو ایسی صورت میں درس و تدریس کا عمل ایک نئی بلندی کو چھو لے گا‘اگر نجی تعلیمی اداروں کی اساتذہ کیلئے تربیت کے خطوط پر سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو بھی تربیت دی جائے تو اِس کے بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ کسی نظام تعلیم میں اساتذہ کلیدی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں اور اُن کی تعلیم و تربیت‘ ساکھ اور کامیابی درحقیقت مستقبل کو محفوظ بنانے جیسی ہے۔ اِس مرحلہئ فکر پر والدین کو بھی چاہئے کہ وہ اساتذہ کی حوصلہ افزائی کریں اور اساتذہ کی محنت اور کوششوں کو سرکاری اور عوامی سطح پر یکساں تسلیم کرنا بھی یکساں اہم و ضروری ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: نادیہ ملجی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)