وارانسی میں واقع گیانواپی مسجد اور کاشی وشواناتھ مندر کے تنازعہ پر 27 مئی کو ایک ٹی وی مباحثے میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی ترجمان نوپور شرما نے پیغمبر اسلام ؐکے بارے میں نفرت انگیز اور سراسر توہین آمیز ریمارکس دئیے۔. اس کے فوراً بعد، ان کے تبصرے کا ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا، جس سے ہندوستان کے مسلمانوں میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔ غصہ جلد ہی ہندوستان کی سرحدوں سے باہر دیگر مسلم اکثریتی ریاستوں میں پھیل گیا۔5 جون کو قطر سے شروع ہو کر، کل 17 مسلم اکثریتی ریاستوں نے اس ریمارکس کی مذمت کی اور بھارتی حکومت سے کہا کہ وہ معافی مانگے اور شرما کے خلاف سخت کاروائی کرے۔ سرکاری مذمت جاری کرنے والے ممالک میں پاکستان،افغانستان، بحرین، مصر، انڈونیشیا، ایران، عراق، اردن، کویت، لیبیا، ملائیشیا، مالدیپ، عمان،، قطر، سعودی عرب، ترکی اور متحدہ عرب امارات سمیت کئی دیگر ممالک شامل ہیں۔ ان ریاستی حکومتوں کے ساتھ ساتھ دو بین الاقوامی تنظیموں، اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور خلیج تعاون کونسل (GCC) نے بھی ان گستاخانہ تبصروں کے خلاف مذمتی بیانات جاری کیے ہیں۔ابتدائی طور پر، حکومت ہند نے ریمارکس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی اور انہیں، گنے چنے عناصرکے انفرادی ریمارکس قرار دیا۔
ہندوستانی حکومت نے یہاں تک کہ پاکستان کی مذمت کو یہ کہہ کر ایک طرف کر دیا کہ وہ اقلیتی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے کے ذریعے اقلیتوں کے حقوق پر لیکچر نہیں دینا چاہتی۔ حکومت ہند نے یہاں تک کہ یہ کہہ کر او آئی سی کو جھنجھوڑ دیا کہ او آئی سی کو اپنے فرقہ وارانہ نقطہ نظر کو اپنانا بند کر دینا چاہئے اور تمام عقائد اور مذاہب کا احترام کرنا چاہئے۔ حالانکہ او آئی سی ممالک کے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں۔ اس پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کومزید مجروح کرنے کیلئے توہین آمیز کلمات کہنے والی بی جے پی ترجمان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہیں کی۔ اس کے برعکس، شرما نے ایک ویڈیو کلپ جاری کیا جس میں اس نے مشکل وقت میں ان کا ساتھ دینے پر بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کا شکریہ ادا کیا۔
شرما کی گرفتاری میں بھارتی حکومت کی ہچکچاہٹ کی وجہ سے جذبات اُبلتے ہی، 10 جون کو بھارت کے مختلف شہروں اور قصبوں میں ہزاروں مسلمانوں نے احتجاجی مظاہرے کیے، جن میں سے کچھ جھڑپوں کا باعث بنے۔ اس کے جواب میں، اتر پردیش میں بی جے پی حکومت نے، جس کی قیادت اس کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے کی، نے نہ صرف مختلف شہروں میں سینکڑوں مسلمانوں کو جیلوں میں ڈالا بلکہ احتجاجی مظاہروں کے کچھ رہنماؤں کے گھروں کو بھی مسمار کر دیا جس کو خود بھارت کے قانونی ماہرین نے مکمل طور پر غیر قانونی قرار دیا گیا۔ہندوستان میں نوپور شرما کے بعد کے ڈرامے نے بی جے پی کے ہندوتوا کے منصوبے کے پیچھے ذہنیت کے بارے میں کچھ حقیقتوں کو بے نقاب کیا ہے۔ کہ مودی سرکار ہر قیمت پر ہندوتوا ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہے۔چاہے اس کے نتائج کچھ بھی ہوں۔خلیجی ریاستوں کے ساتھ ہندوستان کی تجارت 100 بلین ڈالر کے ہندسے سے آگے ہے اور اس کی خام تیل کی درآمدات کا 65 فیصد خلیجی ممالک سے آتا ہے۔
مشرق وسطی بھی تقریبا 80 لاکھ ہندوستانی تارکین وطن کا گھر ہے جو ہر سال اربوں ڈالر کی ترسیلات وطن بھیجتے ہیں۔ کویت، عمان، قطر، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات ہندوستان کو ترسیلات زر کے اہم ذرائع ہیں۔ CNN کے مطابق، غیر مقیم ہندوستانی یا NRIs جیسا کہ انہیں ہندوستان میں کہا جاتا ہے صرف متحدہ عرب امارات سے 20 بلین ڈالر کی ترسیلات زر بھیجتے ہیں۔اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہاس مرتبہ خلیجی ممالک نے جو رد عمل دیا اس نے دائیں بازو کی ہندو قوم پرست ہندوستانی حکومت کو ایک قدم پیچھے ہٹنے پر بظاہر مجبور کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی حکومت نے ابتدا میں تنقید کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کی ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر امیر خلیجی ریاستوں کا دبا ؤنہ ہوتا تو وہ اس بارے میں کچھ بھی نہ کرتی۔بین الاقوامی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کیلئے اس موضوع کو تبدیل کرنے کے باوجود، ہندوستان کی اقلیتوں کے حقوق کو نظر انداز کرنے اور اندرون ملک مسلمانوں کے خلاف اس کے مظالم میں کمی کے بجائے شدت آنے کا امکان ہے۔ اس کا ثبوت ریاستی حکام کی طرف سے 10 جون کے مظاہرین کے خلاف شروع کیے گئے کریک ڈان سے فراہم کیا گیا، جس میں مظاہرین کے رہنماؤں کے گھروں کی غیر قانونی مسماری بھی شامل تھی۔
بی جے پی کی دہلی یونٹ کے سابق میڈیا سربراہ نوپور شرما اور نوین جندال کے بیانات میں جس نفرت کا مظاہرہ کیا گیا، وہ کوئی نیا واقعہ نہیں تھا۔ ہر روز، ہندو انتہا پسندوں کے ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس مسلمانوں کے خلاف نفرت اور اسلام کے خلاف بدسلوکی پھیلاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اکاؤنٹس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ سمیت بی جے پی کی اعلی قیادت بھی فالو کرتی ہے۔ شرما کے خلاف بھارتی حکومت کی سطحی کاروائی کا مقصد بحران کو ٹالنا تھا۔ یہ پہلے ہی ملک کی مسلم آبادی کو نشانہ بنانے پر واپس آچکا ہے اور آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں ان کے خلاف اپنی کاروائیوں کو تیز کرنے کا امکان ہے۔
اگرچہ بی جے پی کے ترجمانوں کے اہانت آمیز اور نفرت انگیز بیانات کے حوالے سے مسلم دنیا کے رہنماں کی یکجہتی قابل تحسین ہے، لیکن اس طرح کے رویے کو معاف کرنے کے خلاف بھارتی حکومت کو لگام دینے کیلئے اسے برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ ہندوستان کے خلاف پوری دنیا کے مسلمانوں میں عوامی غم و غصہ کافی زیادہ ہے، اس لیے صحیح سمت میں پہلا قدم خلیج کے مسلم اکثریتی ممالک کی جانب سے ہندوستانیوں کو ورک ویزا جاری کرنے پر نظر ثانی ہوسکتا ہے۔اس ماہ کے پہلے دو ہفتوں نے ظاہر کیا ہے کہ بین الاقوامی دباؤ ہندوستان پر کام کرتا ہے۔ اس لیے اسے مزید تیز اور متنوع بنانے کی ضرورت ہے اور مسلم دنیا کوبھارتی ہندوتوا ایجنڈے کے خلاف اسی طرح کے عزم اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔(بشکریہ دی نیوز، تحریر: آریش خان، ترجمہ:ابوالحسن امام)