بے فیض سرمایہ کاری

Dead capital
سرکاری ملکیت کی زمین کا موثر انتظام بالخصوص شہروں میں اس کا ضرورت کے مطابق استعمال (استفادہ) ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔ سرکاری اراضی کا استعمال اگر پیداواری مقاصد کیلئے کیا جائے تو اِس سے اداروں کا قومی خزانے پر مالیاتی بوجھ کم ہوگا جبکہ اِس کے غیر پیداواری مقاصد کیلئے استعمال نہ صرف ریاستی وسائل خرچ ہونے کی صورت ضائع ہوں گے بلکہ شہری ترقی بوجھ کی صورت ہوگا اور ملک کی معاشی صورتحال متقاضی ہے کہ سرکاری اخراجات کو زیادہ سے زیادہ پائیدار بنایا جائے چونکہ پاکستان میں سرکاری ملکیت کی زیادہ تر زمین شہروں میں ہے یا بڑے شہری مراکز کے آس پاس پائی جاتی ہے اس لئے ان وسائل کا مؤثر انتظام انتہائی اہم ہے۔ بدقسمتی سے ان وسائل کا انتظام جس طرح کیا جاتا ہے اُس کی وجہ سے ہونے والی سرمایہ کاری بے فیض (مردہ) کہلاتی ہے اور اِس قسم کی سرمایہ کاری کی یہ بہترین مثال ہمیں ہر بڑے شہر میں دکھائی دیتی ہے۔ اِسی طرح ایک اصطلاح ’مردہ دارالحکومت‘ کی بھی ہے جسے ہرنینڈو ڈی سوٹو نے اپنی کتاب ’مسٹری آف کیپیٹل‘ میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے ان اثاثوں کو مردہ سرمایہ قرار دیا جو کم استعمال ہوتے ہیں اور غیر پیداواری مقاصد کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ شہروں میں مکانات کی بجائے کثیرالمنزلہ عمارتیں تعمیر ہونی چاہیئں تاکہ کم سے کم زمین کا استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ افراد کیلئے رہائشی مواقع فراہم کئے جا سکیں۔ اِسی طرح رہائشی مقاصد کیلئے قیمتی اراضی کا استعمال کرنے کی بجائے دور افتادہ علاقوں کی زمینیں استعمال میں لائی جائیں۔ نئے شہر اور نئی بستیاں آباد ہوں تاکہ شہروں کے وسائل پر آبادی کی ضروریات کا بوجھ کم ہو۔ اِسی طرح ٹاؤن پلاننگ سے رہائش کے وہ مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں جن کا تعلق بغیرمنصوبہ بندی‘ مشروم کی طرح اُگنے والی رہائشی بستیوں سے ہے۔ 
پاکستان کے شہری علاقوں میں حکومت کی سالانہ سرمایہ کاری کے امکانات قریب 300 ارب ہیں لیکن سرمائے کے اِس امکان سے فائدہ اُٹھانے کیلئے بہت ہی کم سوچ بچار یا عمل کیا جاتا ہے جو انتہائی ضروری معاشی ترقی کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ آمدنی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ سرکاری ملکیت کی زمین کا ایک بڑا حصہ سرکاری ملازمین کیلئے رہائش وغیرہ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ حکام کی جانب سے شہر کی عمودی توسیع اور ایک منزلہ مکانات کو اونچی عمارتوں میں تبدیل کر کے مردہ سرمائے کو زندہ یعنی زیادہ مفید بنایا جا سکتا ہے اور یہ امکانات کا ایک ایسا جہان ہے جس سے ہر صوبے اور ہر بڑے شہر کے فیصلہ سازوں کو استفادہ کرنا چاہئے کیونکہ جس تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے اُس کے مطابق اگر عمودی تعمیرات کو نہیں اپنایا جائے گا تو اِس سے مستقبل میں گھروں کی ضروریات سے پیدا ہونے والے مسائل بحران کی شکل اختیار کر لیں گے۔ اندازے کے مطابق چھ بلند عمارتیں تعمیر کرنے سے 77 ایکڑ اراضی کی بچت ہوتی ہے جبکہ یہی 52.2 ارب کی خالص آمدنی حاصل کرنے کا موقع بھی ہے۔ اندازے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ عمودی تعمیرات میں حکومت کی سرمایہ کاری کرنے سے معاشی سرگرمی (روزگار کے مواقع) بھی پیدا ہو گی اور اِس سے ملک کی خام پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو میں سالانہ 0.09 فیصد کے تناسب سے اضافہ بھی ہوتا چلا جائے گا۔عوامی اثاثوں کو سمارٹ انتظام سے منظم بنایا جا سکتا ہے لیکن اس کے لئے حکومت کی جانب سے اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ ان وسائل میں کس قدر صلاحیت موجود ہے اور اس صلاحیت کو کیسے اجاگر کیا جائے۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور زمین کی قلت جیسے دونوں مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ شہروں میں عمودی تعمیرات (افقی توسیع) کا راستہ اختیار کیا جائے۔ سال 2010ء میں برطانیہ نے ایک سرکاری ادارہ قائم کیا جو ”پراپرٹی یونٹ“ تھا اور اِس ادارے کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ سرکاری اراضی کا مؤثر انتظام کیا جائے۔ نیشنل آڈٹ آفس (این اے او) کی سال 2017ء میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ریاستی اراضی اور جائیدادیں فروخت کرکے برطانیہ نے ڈھائی ارب پاؤنڈ آمدنی حاصل کی جبکہ اِن سرکاری جائیدادوں پر حکومت سالانہ 775 ملین پاؤنڈ خرچ بھی کرتی تھی اور یوں یہ اخراجات بھی ختم ہوئے۔ اِسی طرح بھارت نے حال ہی میں اگلے چار سالوں کی مدت کے اندر 81ارب ڈالر مالیت کے ریاستی اثاثے فروخت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان کو ریاستی اراضی کی صورت وسائل کا مکمل استعمال یقینی بنانا ہوگا اور اِس مقصد کیلئے سرکاری ملکیت کی رئیل اسٹیٹ (جائیداد و اراضی) کے نظام کو مؤثر و منظم خطوط پر استوار کرنا ہوگا جس کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وسائل دستیاب ہیں۔ حکومت ریاست اور اس کے اداروں کے پاس موجود زمین کے مرکزی ریکارڈ کے ساتھ ایک ڈیٹا بیس تشکیل دینے سے اِس کام کو شروع کیا جا سکتا ہے اور اِسی کوشش سے یہ بات بھی معلوم ہو جائے گی کہ ریاست کے پاس کل کتنی زمین موجود ہے اور اُس کا تناسب و ترقی کے امکانات کیا ہیں۔ سمجھنا ہوگا کہ مستقبل میں ترقیاتی عمل اور غیرترقیاتی اخراجات کو کم کرنے کیلئے سرکاری اراضی کے بندوبست کو منظم کرنا ہوگا۔ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ عموماً ریاستی اراضی کی قیمت ’مارکیٹ ویلیو‘ سے کم رکھی جاتی ہے جبکہ اِس معاملے کا ایک پہلو ’بدعنوانی بھی ہے‘ جس کا قلع قمع کرنا اپنی جگہ اہم و ضروری ہے۔ سرکاری اراضی کے موجودہ استعمال اور قدر کا اندازہ سرکاری ملازمین کی بجائے پیشہ ورانہ اثاثہ جاتی ماہرین سے کروانا چاہئے۔ حکومتی ملازمین مختلف قسم کے دباؤ میں آکر اکثر سرکاری اراضی کے نرخ کم رکھتے ہیں لیکن اگر آزاد انتظامی ماہرین کی ٹیم یہی کام کرے تو اِس سے سرکاری اراضی کی درست قیمت اور اِس کے زیادہ سے زیادہ استعمال و علاقے کی ضروریات کے مطابق اِس سے استفادہ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ریاست کے پاس موجود اضافی کم استعمال شدہ اراضی کو ترقی کیلئے نجی شعبے کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ازور اسلم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)