پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے انٹرنیٹ کے ذریعے ”قابل اعتراض مواد“ کو سنسر کرنے کی کوشش میں انٹرنیٹ فراہمی کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلیاں کی ہیں اور اِس ہدف کے حصول کے لئے ”مرکزی ڈومین“ نامی نظام متعارف کرایا ہے۔ انٹرنیٹ پر کسی بھی قسم کا مواد روکنے (بلاک) کے متعدد طریقے ہیں۔ اس سے قبل بھی پی ٹی اے ایسے متعدد طریقے آزما چکا ہے۔ سال دوہزارچھ میں پی ٹی اے نے بلاگرز کی ایک نہیں بارہ ویب سائٹس کو دو ماہ کیلئے بلاک کر دیا تھا۔ اِسی طرح سال دوہزارآٹھ میں ’پی ٹی اے‘ کی جانب سے یوٹیوب بلاک کرنے سے دنیا کے کئی حصوں میں یہ چینل دو گھنٹے تک ناقابل رسائی رہا‘ سال دوہزاردس میں فیس بک‘ یوٹیوب اور وکی پیڈیا سمیت متعدد ویب سائٹس کو انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر کی سطح پر بلاک کر دیا گیا تھا۔تازہ ترین اقدام میں پی ٹی اے ایک مرکزی ڈی این ایس قائم کر رہا ہے۔ آسان الفاظ میں ڈی این ایس انٹرنیٹ کی فون بک ہے۔ جب ہم اس تک رسائی کے لئے کسی ویب سائٹ یا ایپلی کیشن کا نام درج کرتے ہیں تو ہمیں فوری طور پر اس مخصوص ویب سائٹ یا ایپلی کیشن کے آئی پی ایڈریس سے مطلع کر دیا جاتا ہے کیونکہ یہ معلومات ڈی این ایس پر ذخیرہ ہوتی ہیں۔
مؤثر طور پر ڈی این ایس ڈومین ناموں کو آئی پیز سے منتقل کرنے کا کام کرتا ہے تاکہ ہمارے براؤزر مطلوبہ صفحہ یا ایپلی کیشن کو پڑھ سکیں۔ پی ٹی اے یہ کام ایک مرکزی نظام کے ذریعے پاکستان میں انٹرنیٹ کو سنسر کرنے پر کنٹرول حاصل کرنے کے قابل بنانے کیلئے کر رہا ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ ’پی ٹی اے‘ اب عالمی ’ڈی این ایس‘ کو بھی بلاک کرنا چاہتا ہے۔ یہ پاکستان میں آئی ایس پیز کے ساتھ تنازعہ کا ایک بڑا نقطہ ہے۔ آئی ایس پیز فی الحال صارفین کو اپنے ڈی این ایس یا عالمی ڈی این ایس استعمال کرنے پر مجبور نہیں کرتے اور یہ عالمی عمل کا حصہ ہے۔ عالمی ڈی این ایس کو بلاک کرنے سے اس بات پر خوفناک اثر پڑے گا کہ پاکستانی انٹرنیٹ کا استعمال کیسے کرتے ہیں۔ اِس طرح مواد کی تقسیم نیٹ ورکس (سی ڈی این) پر اثر انداز ہوگی جو صارفین کو جیو کیچنگ کے ذریعے انٹرنیٹ مواد لاتے ہیں یعنی وہ جغرافیائی طور پر صارفین کے قریب سرورز پر پہلے سے لوڈ ہوتے ہیں جو تیز لوڈنگ اور براؤزنگ کو فعال کرتے ہیں۔ فی الوقت پاکستان میں پانچ بڑے سی ڈی این کام کر رہے ہیں۔ اکامی‘ یوٹیوب‘ نیٹ فلکس‘ فیس بک اور کلاؤڈ فلیئر۔ ان کے نظام عالمی ڈی این ایس کے ساتھ مربوط ہیں اور مؤخر الذکر کو بلاک کرنے سے ان کے سی ڈی این پر اثرات مرتب ہوں گے۔
ایک مرکزی ڈی این ایس اور بلاک شدہ عالمی ڈی این ایس پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی رازداری کو کمزور کرنے کا باعث بنے گا کیونکہ مقامی ڈی این ایس ریاستی نگرانی‘ ہیکرز کی جانب سے سیکورٹی خطرات میں اضافہ وغیرہ صارفین کو میل وئر اور وائرس سے بچانے والی ڈی این ایس بلاک فہرستوں تک رسائی کھونے اور متعدد مسائل کے درمیان تجارتی مقاصد کے لئے ڈی این ایس ڈیٹا کے غلط استعمال کے امکانات کا شکار ہو جائے گا۔دنیا پابندیوں سے آزاد انٹرنیٹ کی طرف بڑھ رہی ہے لیکن پاکستان میں پابندیاں زیادہ سخت کی جا رہی ہیں تو ایسی صورت میں کس طرح توقع کی جاتی ہے کہ انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھے گا اور پاکستان میں انٹرنیٹ کے ذریعے تخلیقی قوت اور ذہانت برآمد کرنے سے پاکستان زرمبادلہ کمائے گا! خلاصہئ کلام یہ ہے کہ پی ٹی اے کو عالمی ڈی این ایس روکنے کا ارادہ اور تجویز پر عمل نہیں کرنا چاہئے اور غیر مرکوز ڈی این ایس کی طرف بڑھنا چاہئے تاکہ پاکستان کا ’آئی ٹی سیکٹر‘ خاطرخواہ ترقی کر سکے اور آئی ٹی کی برآمدات بڑھ سکیں تاکہ پاکستان کے ہنرمند عالمی سطح پر سافٹ وئر مارکیٹ کا مقابلہ کر سکیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: اسامہ خلجی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)