پاکستان: مسائل اور حل

آزادی کے ستر سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد پاکستان اپنی زیادہ تر آبادی کیلئے ضروریات زندگی کی قلت کا شکار ہے۔ یہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے اور باوجود اس کے کہ اس نے کم ترقی اور غربت سے نمٹنے کیلئے کئی حکمت عملیاں بھی آزمائی ہیں لیکن کوئی تدبیر کام نہیں آ رہی۔ معروف فلسفی اے این وائٹ ہیڈ نے اِس قسم کی صورتحال کو ”غلط ٹھوسیت“ کا نام دیا ہے جس کا مطلب ہے نامناسب پالیسیوں اور حکمت عملی پر زور دینا۔ چاہے حکمت عملی گھریلو ضروریات کیلئے درآمدی متبادل ہو یا برآمدی رجحانات‘ اس کا مقصد آمدنی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان نے ان پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے پیداواری ٹیکنالوجی (زیادہ لاگت پر) درآمدات کی ہے بجائے اس کے کہ درآمدات کی بجائے مقامی طور پر تیار کردہ مشینری اور وسائل سے استفادہ کیا جاتا۔ جس سے معیشت کو درمیانے سے طویل مدت تک بے پناہ فوائد حاصل ہوتے۔ ”میک اٹ ان پاکستان“ کا نعرہ پاکستان میں گزشتہ برسوں سننے میں آ رہا ہے لیکن خاطرخواہ مراعات نہ دینے کی وجہ سے اِس حکمت عملی کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ سابقہ ادوار میں کئی اشیا پر درآمدی کٹس لگائے گئے۔ ”میڈ بائی پاکستان“ کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کے مختلف شعبے اور ذیلی شعبے ٹیکنالوجی جیسی مصنوعات بنانے کیلئے اجزأ (خام مال) فراہم کرتے۔ پاکستان کی بڑی صنعت ٹیکسٹائل پیداوار کو وسعت دینے کے لئے غیر ملکی مشینری اور معاون مصنوعات کی درآمد میں اضافے پر منحصر ہے۔ مثال کے طور پر جنوبی کوریا الیکٹرانکس‘ جہاز سازی اور دیگر صنعتوں کو ترقی دینے کے قابل بنانے والی اشیا اور ٹیکنالوجی بناتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ جو ممالک اپنے وسائل سے ٹیکنالوجی کے ذریعے مصنوعات بناتے ہیں وہ کورونا وبا کی تباہ کاریوں سے نسبتاً کم متاثر ہوئے۔ پاکستان کی معیشت کیلئے مینوفیکچرنگ اور اشیا کی پیداوار انتہائی اہم ہے کیونکہ معیشت کا ان پر انحصار ہے۔ فعال مینوفیکچرنگ سیکٹر کے بغیر معیشت مابعد صنعتی معیشت نہیں ہو سکتی اور یہ ایک بہت کمزور غیر ترقی یافتہ معیشت رہتی ہے۔ آدم سمتھ کہتا ہے کہ ”یہ سونا اور چاندی نہیں جو کسی ملک کو امیر بناتے ہیں بلکہ اس کے لوگوں کی پیداواری صلاحیت کسی ملک کو امیر بناتی ہے۔“ اگر کسی ملک کے پاس اشیاء تیار کرنے کی طاقت (صلاحیت) نہیں ہے تو وہ غریب ہو جائے گا۔ ایک ملک غریب ہو سکتا ہے تاہم اگر اس کے پاس اپنی کھپت سے زیادہ قیمتی اشیا تیار کرنے کی طاقت ہو تو یہ امیر ہو جاتا ہے لہٰذا دولت پیدا کرنے کی طاقت خود دولت سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ مینوفیکچرنگ کسی بھی ملک کی پیداواری صلاحیت کیلئے جدید ذرائع تشکیل کرتی ہے۔ زراعت اور مینوفیکچرنگ انتہائی اہم شعبے ہیں جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ پیداواری زراعت کا انحصار مینوفیکچرنگ صنعتوں کے ذریعہ فراہم کردہ معلومات کے معیار اور مقدار پر ہوتا ہے۔ درحقیقت کسی بھی معیشت کی فعالیت و ترقی و نمو کیلئے مختلف شعبوں کے درمیان تعلقات اہم ہوتے ہیں۔ 1950ء کی دہائی میں چین نے زراعت اور صنعت کے درمیان فاصلے کو کم کیا اور اِن دونوں شعبوں کے درمیان ایک رابطہ قائم کیا جس سے پیداوار کو فروغ ملا اور زرعی مشینری کے لئے علیحدہ وزارت کا قیام عمل میں آیا۔ مشینوں کے ذریعے زراعت کو ”مینوفیکچرنگ زراعت“ کہا جاتا ہے۔ کوئی بھی قوم یا قوموں کا گروہ جس میں اس مینوفیکچرنگ زرعی صلاحیت کی کمی ہو وہ دیگر ممالک کے رحم و کرم پر ہوتا ہے کیونکہ اِس کی اپنی پیداواری صلاحیت کم ہوتی ہے۔ 
پاکستان میں صنعتی اور دیگر شعبوں کے درمیان تعلق قائم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بامعنی پیداواری صلاحیت کے فقدان سے اِس شعبے کی ترقی اور اَفزودگی کے اِمکانات محدود ہو جاتے ہیں۔ پیداواری صلاحیت کا ڈھانچہ تشکیل دینے والی سب سے اہم صنعتیں جو پیداواری مشینری بناتی ہیں۔ یہ وہ سازوسامان ہوتا ہے جو صنعتیں تقریبا ًتمام اشیا اور خدمات بنانے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی اہم صنعتیں انتہائی ناقص اور کم ترقی یافتہ ہیں جس کی وجہ سے وہ جدید ترقیاتی حرکیات سے محروم ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کو توانائی کا بحران درپیش ہے جس کا حل شمسی توانائی جیسے کئی ایک متبادل ذرائع سے وابستہ ہے لیکن متبادل ذرائع سے توانائی بنانے والی ٹیکنالوجی پاکستان میں تیار نہیں ہوتی اور اِسے برآمد کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے اِس کی لاگت زیادہ ہے۔ مقامی طور پر پیدا ہونے والی کیپیٹل گڈز انڈسٹریز پر مبنی نسبتا خود مختار پیداواری ڈھانچہ کی ترقی بہترین ثابت ہوگی جس کے نتیجے میں پاکستان کو اپنی معیشت پر مزید اختیارات اور کنٹرول حاصل ہوگا اور اس کے نتیجے میں مقامی طور پر پیدا ہونے والی ملازمتوں کے مواقعوں میں بھی اضافہ ہوگا جبکہ آمدنی اور کھپت بڑھے گی۔ جس کے نتیجے میں قومی دولت میں اضافہ ہو گا جو جی ڈی پی کی شرح نمو سے ظاہر ہوتی ہے۔ 
پاکستان کی معاشی ترقی کے سوال پر ماہرین ِمعاشیات میں اِختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ پاکستان کو کوریا کی مثال سامنے رکھنی چاہئے اور ماضی میں 1960ء سے 1965ء کے پانچ سالہ دور میں ایسا کرنے کی ایک کوشش بھی کی گئی ہے۔ ماہرین معاشیات کا دوسرا طبقہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کو خدمات کے شعبے کی ترقی پر توجہ دینی چاہئے لیکن اگر خدمات کسی معیشت کی بنیاد ہوں جیسا کہ ٹرانسپورٹ اور مواصلات‘ خوردہ اور تھوک‘ صحت کی خدمات‘ کاروباری خدمات (کمپیوٹر‘ اِنٹرنیٹ وغیرہ)‘ حکومت اور انتظامی امور یہ سب براہ راست یا بالواسطہ طور پر اشیاء کی پیداوار پر منحصر ہیں۔ اس کا سب سے واضح مظاہرہ فنانس‘ انشورنس اور رئیل سٹیٹ صنعتوں سے ہوتا ہے۔ یہ باقی معیشت کے ذریعہ پیدا ہونے والی اشیاء کو مختلف شعبوں میں منتقل کرتے ہیں۔ معیشت کا مالیاتی شعبہ مینوفیکچرنگ سیکٹر کی شکل میں دولت پیدا کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہوتا ہے۔ مالیاتی شعبہ صرف اپنی سرمایہ کاری پر منافع حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کے مختلف شعبے مختلف افعال سرانجام دیتے ہیں۔ مضبوط مینوفیکچرنگ‘ زراعت اور خدمات کے بغیر جدید معاشی اہداف حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ خاطر خواہ (مناسب) مینوفیکچرنگ سیکٹر کے بغیر معیشت مابعد صنعتی معیشت نہیں بلکہ یہ ایک کمزور غیر ترقی یافتہ معیشت ہوتی ہے۔  (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر پرویز نذیر۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)