افغانستان: قیام امن 

 امریکہ اور اِس کے اتحادی ممالک کی افواج کے افغانستان سے انخلأ کو 10 ماہ ہو چکے ہیں۔ دنیا افغان طالبان کی صورت نئے حکمرانوں سے بات چیت میں مشغول ہے لیکن افغان طالبان کو ایک جائز حکمران کے طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ طالبان دنیا کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے تین اہم عوامل پر پیش رفت کر سکتے ہیں۔ ایک جامع (کثیرالبنیاد) حکومت کی تشکیل۔ خواتین کے حقوق کی ادائیگی بالخصوص لڑکیوں کو تعلیم و ملازمت کا حق دینا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ افغان سرزمین یا افغان وسائل کسی بھی دوسرے ملک کیلئے دہشت گردانہ کاروائیوں کی منصوبہ بندی کیلئے استعمال نہ ہوں۔افغانستان ایک ”قانونی مسئلہ“ بھی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1267میں طالبان کے متعدد رہنماؤں پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ جب تک طالبان قیادت کو پابندیوں کی حکومت سے خارج نہیں کیا جاتا‘ دنیا طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے سے گریزاں رہے گی۔ یہ مخمصہ اپنی جگہ موجود ہے۔ اگر طالبان حکومت کو بے دخل کر دیا جاتا ہے اور وہ ناکام ہو جاتی ہے یا کمزور ہوتی ہے تو دہشت گرد قوتیں افغانستان میں دوبارہ فعال ہو جائیں گی۔ دوسری طرف اگر افغان طالبان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تو وہ دہشت گرد گروہوں کا مقابلہ کر سکیں گے اور افغانستان کی سرزمین یا افغان وسائل کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے تاہم امریکہ اور بعض دیگر ممالک میں رائے عامہ طالبان اور ان کے فلسفے کے خلاف ہے۔ اس مخمصے کا سب سے پریشان کن نتیجہ افغانستان میں حالیہ ”زلزلے“ سے جانی و مالی نقصانات اور معاشی بدحالی کی وجہ سے بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال ہے۔ افغانستان میں بنیادی ضروریات بھی عام آدمی کی قوت خرید میں نہیں رہیں۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ بینکوں کے پاس سرمایہ نہیں رہا۔ بے روزگاری کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح سے بھی زیادہ بلند ہے۔ خوراک اور ادویات کی کمی ہے۔ طالبان حکومت کے پاس سرکاری ملازمین یا فوجیوں کو ادائیگی کیلئے پیسے نہیں ہیں۔ اور اِس سے پیدا ہونے والی انتشاری کیفیت  اور افغانستان میں انسانی تباہی کو ٹالنے اور معاشی و سماجی استحکام یقینی بنانے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز یعنی طالبان حکومت‘ خطے کے ممالک (بالخصوص ہمسایہ ممالک) اور عالمی برادری کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ سب سے پہلے یہ طالبان پر منحصر ہے کہ وہ کس قدر جلد ایک جامع (وسیع البنیاد) ایسی حکومت کو تشکیل دیتے ہیں جس میں ہر نسلی و لسانی اور سیاسی جماعت کو نمائندگی حاصل ہو۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ طالبان مخالف کچھ افغان گروہوں نے پہلے ہی قومی مزاحمتی تحریک شروع کر رکھی ہے اور یہ بات خود طالبان کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ دیگر تمام نسلی و سیاسی گروہوں کو ساتھ لے کر چلیں تاکہ ملک دوبارہ خانہ جنگی جیسے تلخ تجربے (امتحان) سے نہ گزرے۔ دریں اثنا متعدد دہشت گرد ادارے افغانستان میں اپنے قدم جما رہے ہیں۔طالبان مخالف عسکریت پسند گروہ نے حال ہی میں کابل اور دیگر شہروں میں عوامی مقامات پر دہشت گرد حملے کئے ہیں۔ افغانستان میں امن کے دوسرے سٹیک ہولڈرز میں ہمسایہ ممالک اور قریبی ہمسایہ ممالک شامل ہیں جو خاص طور پر انسانی امداد کے حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ کر رہے ہیں تاہم یہ امداد افغانستان میں موجود انسانی بحران کے حجم کو دیکھتے ہوئے کافی نہیں ہے۔ طالبان حکومت کو ملک چلانے کے لئے تکنیکی وسائل اور مالی امداد کی ضرورت ہے جس کے لئے خطے کے ممالک کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں تیسرا بڑا اسٹیک ہولڈر امریکہ اور اِس کے اتحادی یورپی ممالک ہیں جنہیں اپنے موجودہ جبری معاشی نقطہ نظر پر نظرثانی کرنا چاہئے کیونکہ اِس سے افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ بات کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں کہ افغانستان ایک مرتبہ پھر دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھ میں چلا جائے جنہیں ملک کی خراب معاشی صورتحال میں اپنا گھناؤنا کھیل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔پاکستان کی بنیادی تشویش عام افغانوں کی فلاح و بہبود  ہے جو چار دہائیوں کی جنگ کے بعد امن و استحکام کے مستحق ہیں۔ انسانی امداد کے ساتھ ساتھ پاکستان کو افغانوں کو معاشی ترقی کے مواقع بھی فراہم  کرنے میں مدد دے رہا ہے  اور افغانستان کو وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان راہداری (ٹرانزٹ) مرکز بننے میں سہولت فراہم کرنے کیلئے تیار ہے۔ پاکستان نے افغانستان کا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے دنیا کو اِس بات کی تلقین  کی ہے کہ وہ افغانوں کو اِس مشکل میں تنہا نہ چھوڑے۔ افغانستان کو نظرانداز کرنے سے بڑی تعداد میں افغان ہمسایہ ممالک کا رخ کریں گے۔ ہجرت و نقل مکانی ہوتی اور اِس سے خطے میں امن و سلامتی کیلئے نئے خطرات جنم لیں گے جیسا کہ ماضی میں بھی دیکھا گیا کہ دہشت گرد گروہ بھیس بدل کر کس طرح پوری دنیا میں پھیل گئے اور یہ خطرہ اب بھی موجود ہے جس سے سے نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک بلکہ پوری دنیا کے بُری طرح متاثر ہونے کا امکان موجود ہے۔ (مضمون نگار سابق سیکرٹری خارجہ امور رہے ہیں۔ بشکریہ: ڈان۔ تحریر: اعزاز چوہدری۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)