کمزور حافظہ: میموری کیئر سنٹرز کی ضرورت


امریکی مصنفہ (فکشن رائٹر) ایمی بلوم لکھتی ہیں ٗمیں نے حال ہی میں اپنے شوہر کے آخری ایام کی یادداشتیں تحریر کیں۔ ایمی اور ان کے شوہر دونوں ہی اپنی زندگی کی چھ دہائیاں مکمل کرچکے تھے‘ ان کے بچے بڑے ہوگئے تھے اور اب یہ دونوں اپنے مختلف مشاغل میں مصروف ہونے اور اپنے ادھورے خواب پورے کرنے کا سوچ رہے تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب ایمی کو محسوس ہوا کہ ان کے شوہر کو اب معمولی کاموں میں بھی مشکل ہونے لگی ہے۔ اگر ان کے شوہر برائن کو بک کلب سے بہت زیادہ ای میلز موصول ہوتیں یا وہ معمول سے نصف گھنٹہ قبل ملاقات کی تجویز دیتے تو برائن کو فوراً غصہ آجاتا۔ جب ایمی ان ’ای میلز‘ کو دیکھتیں تو ان میں وقت کی تبدیلی کا ذکر ہوتا اور کوئی ایسی بات نہ ہوتی جس سے کسی کو غصہ آئے۔ وہ پریشان تھیں کہ ان کے شوہر جو عام طور پر پُرسکون رہتے ہیں ان کے ساتھ آخر ہو کیا رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں واضح ہوتی گئیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ برائن چیزیں بھولنے لگے‘ جیسے کہ پرنٹر کو کس طرح استعمال کرنا ہے‘ وہ صرف یہ نہیں بھولتے تھے کہ پرنٹر کو چلانا کیسے ہے بلکہ انہیں یہ تک یاد نہیں رہتا کہ یہ مشین کوئی دستاویز پرنٹ کرنے کے لئے استعمال ہو سکتی ہے۔ اُس وقت ایمی نے نیورولوجسٹ کی مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا کیونکہ برائن اپنے اوپر مکمل یقین رکھنے والے شخص تھے۔ وہ زندگی کی چھ دہائیاں گزار چکے تھے اور کچھ ضدی ہوگئے تھے۔ ایمی نے برائن کو علاج کروانے کے لئے قائل کرنے سے قبل یہ سوچا کہ کیا یہ سب ان کی عمر کی وجہ سے ہورہا تھا؟ برائن اپنی جوانی میں ایتھلیٹ رہے تھے اور جسمانی طور پر وہ بالکل ٹھیک تھے۔ تو پھر انہیں ڈاکٹر کے پاس کیوں لے جایا جاتا اور کیوں اضافی ٹیسٹ کروائے جاتے؟ ڈاکٹر سے ملاقات سے قبل بھی برائن کی یادداشت متاثر ہوتی رہی۔ جب ان کے تمام ایم آر آئی اور سی ٹی اسکینز مکمل ہوگئے تو صورتحال واضح ہوگئی۔ برائن میں الزائمر کی ابتدائی علامات تھیں۔ وہ اپنی یادداشت کھوتے جارہے تھے جبکہ انہوں نے ابھی اپنی عمر کے ستر سال بھی پورے نہیں کئے تھے۔ جب ڈاکٹروں نے حتمی طور پر انہیں اس خبر سے آگاہ کیا تو دونوں میاں بیوی شدید افسردہ ہوئے۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر جگہ صحت کی سہولیات میں بہتری آنے کی وجہ سے لوگ اب پہلے سے زیادہ طویل عمر پارہے ہیں۔ بہت کم لوگوں میں الزائمر کی تشخیص ہوپاتی ہے اور اس کی ابتدائی علامات کی تشخیص تو اور کم ہوتی ہے۔ اکثر لوگوں میں یادداشت چلی جانے اور ڈائمینشیا کی کسی قسم کی ہی تشخیص ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں جس دیکھ بھال کی ضرورت ہوگی وہ بزرگوں کو درکار معمول کی دیکھ بھال سے مختلف اور زیادہ مشکل ہوگی۔ جو لوگ ان بیماریوں میں مبتلا افراد کی دیکھ بھال کرتے ہیں انہیں معلوم ہوگا کہ ایسے افراد اپنی زندگی کے کئی اہم واقعات بھی بھول جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر انہیں یاد نہیں رہتا کہ ان کے والدین یا ان کا شوہر یا اہلیہ اب دنیا میں نہیں رہے۔ جب انہیں اس حقیقت کا احساس دلایا جاتا ہے تو انہیں اسی طرح دکھ اور افسوس ہوتا ہے جیسا انہیں پہلی مرتبہ وہ خبر سننے پر ہوتا ہے۔ اس قسم کی صورتحال کا بار بار سامنا کرنا ہر کسی کے لئے مشکل کا باعث ہوتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ دیکھ بھال کرنے والے لوگ یہ کہہ دیا کریں کہ جس شخص کا ذکر ہورہا ہے اس کا انتقال نہیں ہوا بلکہ یہ کہنا بہتر ہے کہ وہ کہیں گیا ہوا ہے۔ یہ بات بہت ضروری ہے کیونکہ یادداشت سے متعلق مسائل کا شکار لوگوں کو یہ یاد نہیں رہتا کہ دس منٹ قبل کیا ہوا تھا یا پھر یہ کہ آیا انہوں نے ناشتہ کیا تھا یا نہیں یا پھر ان کی جوانی کے واقعات ان کے ذہن میں اس طرح سامنے آتے ہیں جیسے وہ کل ہی وقوع پذیر ہوئے ہوں۔ شہری زندگی کے دباؤ اور بڑھتی مہنگائی نے متوسط طبقے کے لاکھوں خاندانوں کو بھی غربت کے خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ گھر پر بزرگوں کی دیکھ بھال کرنے والوں (عموماً خواتین) کو بھی اب روزگار کے لئے گھر سے نکلنا ہوگا۔ اب یہاں یہ مسئلہ کھڑا ہوتا ہے کہ اس طرح بزرگ افراد گھر پر اکیلے رہ جائیں گے جو ان کے لئے مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ الزائمر کے مریض اپنے گھر سے نکل پڑتے ہیں اور شہر میں گھومتے رہتے ہیں۔ پھر ان کے گھر والے خوف کے عالم میں محلے داروں کو مطلع کرتے ہیں اور اپنے والد یا والدہ کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر یہ فوری حرکت میں آئیں تو وہ مل سکتے ہیں تاہم اگر وہ مل بھی جائیں تو ان کی عزت نفس ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتی ہے کیونکہ وہ پھر ریٹائرڈ جج یا ڈاکٹر نہیں رہتے بلکہ وہ پھر قابلِ رحم لوگ بن جاتے ہیں۔ اس صورتحال کے لئے خاص اصطلاح بھی موجود ہے۔ الزائمر اور خاص طور پر اس کی ابتدائی علامات کی تشخیص ہونے کا مطلب ہے کہ مریض کے گھر والے اب ایک ’طویل الوداع‘ کا تجربہ کریں گے۔ اصل میں مریض جسمانی طور پر تو تندرست ہوتا ہے اور کئی سال اور بعض اوقات تو ایک دہائی سے زیادہ زندہ رہتا ہے لیکن وقت کے ساتھ اس کا ذہن اور یادداشت خالی ہونے لگتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ خوراک کو کھانا اور نگلنا بھی بھول جاتا ہے۔ اس وقت وہ اپنے ہی ماضی کی نسبت بالکل مختلف نظر آتا ہے۔ایمی بلوم کا تجربہ اس سے مختلف رہا کیونکہ اس سے قبل کہ ان کے شوہر بھی اس حالت کو پہنچتے وہ سوئٹزرلینڈ میں ایک اسسٹڈ سوسائیڈ فیسیلٹی میں چلے گئے جبکہ اس وقت تک ان کی ذہنی حالت بہت بہتر تھی۔ انہوں نے ایسا اس وجہ سے کیا کہ برائن کہیں اس حالت میں نہ چلے جائیں جہاں وہ خود کو پہچان نہ سکیں۔ کچھ امریکی ریاستوں میں اسسٹڈ ڈیتھ کی اجازت ہوتی ہے لیکن اس کے لئے شرط ہوتی ہے کہ مریض کو کوئی ناقابلِ علاج بیماری ہو اور مریض کے پاس جینے کے لئے صرف چھ ماہ باقی ہوں۔ شاید اس جوڑے نے سوچا ہو کہ یہ برائن کے لئے واحد انتخاب ہے۔ بہرحال جن ممالک میں اسسٹڈ سوسائیڈکو قانونی حیثیت حاصل ہے وہاں بھی یہ ایک متنازعہ عمل ہے ہماری توجہ ان لوگوں کی دیکھ بھال پر مرکوز ہونی چاہئے جو اپنی یادداشت کھو رہے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں میموری کیئر سنٹرز کی اشد ضرورت ہے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ یادداشت سے متعلق یہ مسئلہ کیا ہے اور اس سے متاثرہ لوگوں کی کس طرح مدد کی جائے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: رافعیہ ذکریا۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)