ٹیکس کے علاوہ اور ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی قومی آمدنی کے 2 الگ جز ہیں۔ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ محصولات (ٹیکسوں) قبل ازیں اعلان کردہ بنا ٹیکس آمدنی کے ہدف میں 440 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ مالی سال 2022-23ء کے بجٹ میں ایک سال میں متوقع آمدنی 905 ارب روپے مقرر کی گئی ہے۔ اِسی مذکورہ مالی سال میں 400ارب روپے سے زائد کی آمدنی 12.8فیصد مہنگائی جبکہ بقیہ 505 ارب روپے معاشی بہتری و ترقی سے متوقع ہے۔ قومی آمدنی کا دوسرا جز ’ٹیکسز‘ ہیں جس پر نظرثانی کی گئی ہے اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی ٹیکنیکل ٹیم کے ساتھ مذاکرات کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ٹیکس وصولی کے ہدف کو بھی بڑھا دیا گیا ہے۔ نیا ہدف 7.004 کھرب روپے سے بڑھا کر 7.47 کھرب روپے کر دیا ہے تاہم غیر ٹیکس محصولات کے ہدف کو 2 کھرب سے کم کرکے 1.94 کھرب روپے کیا گیا ہے۔ ٹیکس ہو یا بنا ٹیکس مذکورہ آمدن کی پائی پائی عوام سے وصول کی جائے گی اور حکومتیں اِسی مقصد کیلئے بنائی جاتی ہیں کہ وہ عوام سے ٹیکس وصول کریں اور اِس آمدنی کو پائیدار و پیداواری شعبوں میں خرچ کریں تاکہ معاشی بہتری حاصل ہو۔ رواں ہفتے ہونے والی دوسری اہم پیشرفت عوامی جمہوریہ چین کی طرف سے پاکستان کو فراہم کئے جانے والے 2.3 ارب ڈالر فراہم کرنے کا معاہدہ ہے جس کے بعد پاکستان کی کرنسی مارکیٹ میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت 3روپے کم ہوئی اور سونا 4600روپے فی تولہ سستا ہوا۔ یہ اشاریئے یقینی طور پر معیشت کی درست سمت پیش رفت کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود منزل ابھی بہت دور ہے۔
ابھی بہت سے مراحل طے کرنا باقی ہیں اور متعینہ اہداف تک پہنچنے میں ابھی ”دوچار بہت سخت مقام“ آنے ہیں جن کی طرف وزیراعظم شہبازشریف نے اشارہ کر رکھا ہے۔ حکومتی اکابرین کی طرف سے غلط حکمت عملیوں کو حسب حال درست کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اصلاح احوال کے نقطہ نظر سے دوسروں کی خامیوں اور کمزوریوں سے دامن بچا کر بھی بہتر اور مؤثرحکمت عملی اپنائی جا سکتی ہے اور کسی سے جھگڑے یا الجھے بغیر بھی قومی معاشی معاملات کو سلجھایا جا سکتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ زرمبادلہ کے قومی ذخائر کم ہیں۔ ڈالر کی اڑان کے باعث روپے کی قدر کم تر ہوتی جارہی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ طے پائے معاہدے سے انحراف اور عوام کو ریلیف کی وجہ سے قومی خزانے پر بوجھ ہے۔ امریکہ جیسی سپرپاور کو ناراض کرکے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) میں پاکستان کے گرے لسٹ میں برقرار رہنے کا جواز مہیا کیا جاتا رہا۔ بے روزگار افراد کیلئے روزگار کا بندوبست نہیں ہو رہا الغرض ایک ایسے وقت میں زمین بوس معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کی گئی جب پاکستان کے دیوالیہ ’سری لنکا‘ جیسی معاشی حالت بارے باتیں ہونے لگی تھیں۔
موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھال کر ان گھمبیر مسائل کو حل کرنے اور سنگین چیلنجز سے عہدہ برأ ہونے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس ضمن میں اِسے بہت سے مشکلات اور غیرمقبول فیصلے بھی کرنا پڑے‘جن کے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان آیا۔ پٹرولیم مصنوعات‘ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اس کے لئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو گیا لیکن اس کے باوجود عوام موجودہ حکومت سے یہ امیدیں بھی وابستہ کئے ہوئے ہیں کہ وہ اپنی تجربہ کار اور اہل معاشی ٹیم کی بدولت ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اب جبکہ حکومت کی طرف سے قوم کو مزید مشکل فیصلوں کا مژدہ سنایا جارہا ہے تو اس کے ساتھ یہ کہہ کر دلاسہ بھی دیا جارہا ہے کہ عام آدمی کے مقابلے میں پہلی مرتبہ اہل ثروت پر بھی ٹیکس لاگو کیا جائے گا اور جس کی جتنی زیادہ آمدن ہو گی اس پر اسی نسبت سے ٹیکس بڑھایا جائے گا۔ اس لئے کہ حکومت کو عام آدمی کی مشکلات کا احساس ہے اور چاہتی ہے کہ نامساعد حالات کے باوجود عام آدمی پر کم سے کم بوجھ ڈالا جائے۔ اس مقصد کیلئے بعض شعبوں میں ریلیف دینے کا اہتمام بھی کیا جارہا ہے۔ گو موجودہ مشکل حالات میں آئی ایم ایف اور عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ ہونے والے معاہدے قوم کی ہمت بندھانے کا باعث ہیں لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ حکومت مستقبل قریب میں جو مشکل فیصلے کرنے جا رہی ہے‘ ان پر اسے عام آدمی کی مشکلات کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہئیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر امجد نعیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)