اس میں کوئی شک نہیں کہ روپے کی قدر میں جو حالیہ اضافہ ہوا ہے وہ ایک مثبت اشارہ ہے اور پاکستانی روپے کو غیرملکی قرض سہارا دے سکتا ہے اور اِس سلسلے میں چین کی جانب سے 2.3 ارب ڈالر کے قرض سے روپے کی قدر میں کچھ بہتری آئی۔ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت متعدد بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان ’آئی ایم ایف‘ معاہدے کے اختتام کے منتظر ہیں تاکہ منصوبہ جاتی قرضے فراہم کئے جا سکیں۔ سٹیٹ بینک مارکیٹ شرح تبادلہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔ مرکزی بینک سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ قلیل مدتی ڈالر روپے کے تبادلے کے ذریعے مارکیٹ میں مداخلت کرے گا‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مارکیٹ میں فروخت ہونے والے ڈالر کو چند دن سے چند ہفتوں تک کی مدت کے اندر واپس خرید لے گا۔ سٹیٹ بینک مالی سال کے اختتام پر مارکیٹ میں ڈالروں کا خالص فروخت کنندہ نہیں بننا چاہتا اور اِس بات کی آئی ایم ایف اجازت بھی نہیں دیتا لہٰذا مستقبل میں روپے کی شرح تبادلہ کا انحصار اس بات پر ہے کہ پاکستان کو چین کے بینکوں کے کنسورشیم سے 2.3ارب ڈالر کب ملتے ہیں۔
امید کے دیگر محرکات یہ ہیں کہ چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے مزید کتنے مالی وسائل آسکتے ہیں اور ترسیلات زر اور برآمدات میں کس قدر اضافہ ہوتا ہے۔ درآمدات میں کمی‘ عالمی ایندھن اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی بیشی اور آئی ایم ایف اپنے قرض پروگرام کو کتنی جلدی بحال کرتا ہے اور جولائی میں متوقع اس کی اگلی قسط کی رقم ملتی ہے یا نہیں‘ یہ سب شرح تبادلہ کے اتار چڑھاؤ کو متاثر کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کی بحالی قریب ہے کیونکہ پاکستان نے ایندھن کے تیل کی قیمتوں میں اضافے اور گیس و بجلی پر دی جانے والی اہم و متنازعہ سبسڈی ختم کر دی ہے۔ دریں اثنا پاکستان کیلئے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے باہر ہونے کے امکانات بھی روشن ہوگئے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف نے حال ہی میں مشکوک ممالک کی فہرست سے پاکستان کو خارج کرنے کیلئے اپنی شرائط پر پاکستان کی تعمیل کا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے عہدیدار تعمیل کی تفصیلات کی تصدیق کیلئے ملک کا دورہ کریں گے اور تب گرے لسٹ کے اخراج کا باقاعدہ اعلان کیا جائے گا۔
یہ دونوں پیش رفتیں انتہائی اہم ہیں یعنی آئی ایم ایف کے قرضوں کی ممکنہ بحالی اور بالآخر اکتوبر تک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر ہو جانا پاکستان کے بیرونی شعبے کو ترتیب دینے میں مدد گار ثابت ہوگا۔ چین اور دوست ممالک سے قرض اور ترقیاتی حکمت ِعملیوں کیلئے مالی وسائل ملنے کے بعد توقع ہے کہ پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) میں اضافہ ہوگا جو اِس وقت سالانہ 2 ارب ڈالر ہے۔ مسلم لیگ نواز کی قیادت میں حکومت کی اقتصادی ٹیم کو احساس ہے کہ غیرملکی سرمایہ کاری کے ساتھ غیر ملکی پورٹ فولیو سرمایہ کاری میں اضافے سے انہیں پاکستان کے بیرونی شعبے کو تشکیل دینے میں مدد ملنی چاہئے۔ یہاں تک کہ اشیا اور خدمات کی برآمدات کو فروغ دینے کی بہترین کوششوں کو بھی تجارتی خسارے میں نمایاں کمی لانے میں تین سال سے کم وقت نہیں لگے گا چاہے درآمدات پر مشتمل محصولات اور نان ٹیرف اقدامات ساتھ ساتھ جاری رہیں۔ ترسیلات زر کی شرح نمو پہلے ہی سست روی کا شکار ہونا شروع ہو چکی ہے اور اگر یہ کمی زیادہ عرصے جاری رہتی ہے تو یہ پریشانی کا باعث امر ہوگا۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: محی الدین عظیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)