پاکستان اپنی تخلیق کے بعد سے مشکل ترین ”معاشی ایڈجسٹمنٹ“ کے دور سے گزر رہا ہے۔ اِس بحرانی صورتحال میں ملک کا طویل مدتی مستقبل کسی پہیلی کی طرح معمہ ہے جو تاحال حل نہیں ہو سکا ہے۔ بنیادی ضرورت مہنگائی پر قابو پانے کی ہے کیونکہ مہنگائی کا بحران سیاسی‘ سماجی اور معاشی خلفشار میں تبدیل ہونا شروع ہو چکا ہے۔ اصلاحات کا مطالبہ اور اصلاحات کا چیلنج ہر دور کی مشکل رہا ہے اور اگر قیام پاکستان سے مختلف ادوار کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان نے بطور ایک آزاد ریاست سب سے زیادہ کوشش اصلاحات کے حوالے سے کیں ہے اور اصلاحات ہی کے حوالے سے سب سے زیادہ پریشانیاں بھی دیکھی گئی ہیں۔ قیام پاکستان سے ایک ایسا دور چلا آ رہا ہے جسے اہم اداروں کے خاتمے‘ بے ترتیب حکمت عملیوں اور سب سے بڑھ کر ترقی پسند ایجنڈوں سے لیس حکمران ڈھانچے بنانے میں ناکامی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ پورے قانون کی حکمرانی سے لیکر مسائل کے حل تک ہر شعبے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ہر شعبے میں اصلاحات کی ناکامی کے ساتھ ساتھ مبینہ ترقی آگے بڑھی ہے!
بنیادی طور پر اصلاحات کے تصور کوکسی مرکزی ستون کے طور پر قانون کی حکمرانی سے مربوط ہونا چاہئے۔شہری سڑکوں پر روزمرہ کے ٹریفک کے حالات سے لے کر سیاست اور معیشت کے اعلیٰ سطحی اداروں کے ساتھ ہونے والے واقعات تک‘ قانون توڑنا معمول بن چکا ہے اورر قانون کے مطابق عمل درآمد ہونا بھی لازم نہیں رکھا گیا۔ مہنگائی میں اعتدال ضروری ہے۔ اگلے مالی سال کے لئے عائد کئے گئے بھاری ٹیکسیز کو ٹیکس اصلاحات کے مترادف نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت ٹیکسوں کے ذریعے زیادہ آمدنی حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن زیادہ آمدنی والوں سے زیادہ ٹیکس وصول نہیں کرنا چاہتی اور اِس حکمت عملی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت فائلرز اور نان فائلرز سے الگ الگ شرح سے ٹیکس وصول کرتی ہے جبکہ اصولاً یہ ہونا چاہئے کہ جو لوگ ٹیکس ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے یا وہ ٹیکس ادائیگی کے قابل نہیں اور اُن کی آمدنی قابل ٹیکس مقررہ شرح سے کم ہے لیکن اُنہیں نان فائلرز قرار دے کر اُن سے دگنا ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ یہ سراسر تضاد ہے۔ جو لوگ ٹیکس ادا کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتے اُن سے زیادہ ٹیکس وصول کرنا کہاں کا انصاف ہے؟
اسی طرح فائلرز اگر پرآسائش اشیا جیسا کہ گاڑیاں درآمد کرتے ہیں تو اُن سے کم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جبکہ اصولاً زیادہ ٹیکس وصول ہونا چاہئے کیونکہ وہ ٹیکس ادا کر سکتے ہیں۔ پالیسی کا یہی تضاد ہے کہ ہمیں سڑکوں پر درآمد شدہ گاڑیوں کی تعداد زیادہ دکھائی دینے لگی ہے اور اب ہر کسی کی خواہش ہے کہ وہ پاکستان کی بجائے بیرون ملک تیار ہونیوالی گاڑیاں استعمال کرے کیونکہ یہ سماجی حیثیت کی نشانی (علامت) بھی بن چکی ہے۔ ٹیکس وصولی کا طریقہ کار و انحصار زیادہ آمدنی پر ہونا چاہئے جبکہ قومی سطح پر اصلاحات میں صرف ٹیکسز (آمدنی) ہی نہیں بلکہ ہر ایک ادارے کی اصلاح ضروری ہے کیونکہ مسئلہ وسائل کی کمی کا نہیں بلکہ انتظامی خامیوں کا ہے اور یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کے ہر سرکاری ادارے میں مالی و انتظامی بدعنوانی پائی جاتی ہے جس کی اصلاح کئے بغیر اصلاحات کا ایجنڈا کتنا ہی جامع کیوں نہ ہو کامیاب نہیں ہو سکتا اور آخری بات یہ ہے کہ ایک قابل اعتماد اصلاحاتی ایجنڈا اس وقت تک کامیابی سے آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک کہ وہ دباؤ سے الگ نہ ہو‘ خاص طور پر سیاسی دباؤ اور سیاسی مقاصد یا ایجنڈا۔
سیاسی جماعتیں ہر کام کو اپنے مفاد کی عینک لگا کر دیکھتی ہیں جس کی وجہ سے بھی اصلاحات کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے اور سوائے بات چیت کے کچھ حاصل وصول نہیں ہوتا۔ اصلاحی کوششوں کی کامیابی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ انہیں انجام تک پہنچائے بغیر حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ختم نہ کیا جائے۔ پاکستان کی تاریخ میں کئی مرتبہ اصلاحات کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ہر مرتبہ کام کو آدھے راستے سے ترک کر دیا گیا۔ آج کا پاکستان افسوسناک طور پر شدید و بدترین چیلنجوں سے دوچار ہے جن پر قابو پانے کے لئے اپنے عزم کے ساتھ عمل کی ضرورت ہے۔ قابل اعتماد اصلاحات وہی ہوں گی جس میں سرمایہ داروں سے حصہ بقدر جثہ ٹیکس وصول کر لیا جائے پاکستان کی تقدیر بدلنے کی طرف پہلا قدم ہوگا جس کا طویل عرصے سے انتظار کیا جا رہا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: فرحان بخاری۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)