بااختیار پاکستان

پنجاب حکومت کے ترجمان اور صوبائی وزیر عطا اللہ تارڑ نے صوبے میں عصمت دری کی ایمرجنسی متعارف کرانے کی بات کی ہے کیونکہ پنجاب میں لڑکیوں اور خواتین کے خلاف جرائم کی شرح دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔ جہاں ہر روز چار سے پانچ عصمت دری کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہوں وہاں ’ہنگامی حالات‘ کا نفاذ یقینا ہونا چاہئے لیکن تخمینہ یہ ہے کہ پنجاب میں عصمت دری کے واقعات کی تعداد معلوم واقعات سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ عصمت دری یا اِس قسم کے حملوں کی صورت زیادہ تر متاثرین قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلع نہیں کرتے اور جرم کو احساس جرم و ندامت کے ساتھ گھول کر پی جاتے ہیں! کسی معاشرے میں جرائم کو برداشت کرنے کی صلاحیت مثبت نہیں بلکہ خوفزدہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔مسئلہ یہ درپیش ہے کہ عصمت دری کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے کیا طریقہ اختیار ہونا چاہئے۔ تارڑ نے اپنی بریفنگ میں والدین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اکیلے گھر پر نہ چھوڑیں اور ان پر نظر رکھیں۔ اصولی طور پر یہ ایک عملی تنبیہ ہے لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ بہت سے بچے اپنے گھروں کے اندر حملہ یا عصمت دری کا شکار نہیں ہوتے اور اسی طرح بڑی عمر کی لڑکیاں اور خواتین بھی گھر سے باہر خود کو غیرمحفوظ سمجھتی ہیں۔ بچوں کے استحصال سے نمٹنے والے گروپوں کے مطابق ہمارے معاشرے میں ایک پریشان کن طور پر مانوس مسئلہ ’انسیسٹ‘ کا ہے یعنی بچوں کو اپنے گھروں میں کام کرنے والے ملازمین‘ رشتہ داروں‘ پڑوسیوں اور گھر ہی کے افراد سے خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ بچوں کے خلاف جنسی نوعیت کے جرائم کے سب سے عام مجرم رشتہ دار ہوتے ہیں۔ یہ مجرم اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو خاندان سے کافی قریبی طور پر جڑے ہوتے ہیں اور جن کے جرم کی اطلاع نہیں دی جاتی کیونکہ بچوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے پر پردہ ڈالیں‘ بجائے اس کے کہ خاندان میں کسی قسم کی دراڑ پیدا ہو۔ عصمت دری کے معاملے میں بہت سی پیچیدگیاں ہیں اور بچوں کو گھر میں رکھنا‘ یہاں تک کہ اُن کی نگرانی کے لئے کسی بالغ کو مقرر کرنے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ محفوظ ہیں۔ صوبائی وزیر کی طرف سے ایک بہتر تجویز یہ سامنے آئی ہے کہ سکولوں میں بچوں کو تعلیم دی جائے کہ خود کو جنسی حملوں سے کس طرح محفوظ رکھیں۔ یہ سمجھداری اور دانشمندی پر مبنی تجویز ہے بشرطیکہ اِس پر عمل درآمد ہو لیکن جب معاشرے میں بچوں کے خلاف اور عمومی جنسی جرائم کو چھپانے کی سوچ پائی جاتی ہو تو ایسی صورت میں کوئی بھی حربہ اور تدبیر کارآمد نہیں ہوسکتے۔ بنیادی ضرورت سوچ کو تبدیل کرنے کی ہے اور جنسی جرائم کو جرائم سمجھتے ہوئے اِن سے نفرت و لاتعلقی کا اظہار کرنے کی ہے۔ آخر ہم یہ سیدھی سادی بات کیوں نہیں سمجھتے کہ جب کسی جنسی جرم کے مرتکب شخص کو معافی مانگے بغیر اور شرمندگی کے اظہار کے بغیر معاف کر دیا جاتا ہے تو وہ دوسروں کے لئے خطرہ بنتا ہے اور اِس طرح معاشرہ غیرمحفوظ ہو جاتا ہے۔فیصلہ سازوں‘ والدین اور اساتذہ کو انٹرنیٹ کا غلط استعمال روکنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات کرنے چاہئیں‘ ضرورت اِس امر کی ہے کہ کسی بھی دوسرے موضوع کی طرح جنسی موضوعات کے حوالے سے بھی تعلیمی اداروں میں درست معلومات فراہم کی جائیں اور بچوں کو اُن کی عمر کے حساب سے اچھے برے کی تمیز سکھائی جائے‘ تعلیمی اداروں کو بامقصد مہمات چلانے کی ضرورت ہے اور اِس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ تعلیمی اداروں کے اندر بچوں کو کسی بھی طرح ہراساں نہ کیا جائے‘تعلیمی اداروں کو یہ بات اپنی جگہ یقینی بنانی ہے کہ زیادہ احتیاط سے کام لیں گے اور بچوں کو ہراساں کرنے والوں کی پردہ پوشی نہیں کی جائیگی بلکہ ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو منظرعام پر لایا جائے گا اِسی طرح تعلیمی اداروں اور والدین کے درمیان قوی اور مستقبل بنیادوں پر تبادلہئ خیال ہونا چاہئے  ہمیں اس مسئلے کا زیادہ تفصیل سے مطالعہ کرنے اور یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ پیرامیٹرز کیا ہیں جو اتنی کثرت سے اس طرح کے جرائم کا باعث بن رہے ہیں اور ہمیں بچوں کو یہ اعتماد دینے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ کھلے عام اور آزادانہ طور پر ایسے کسی حملے (جرم) کی اطلاع دیں اور والدین اور اساتذہ دونوں کے ساتھ اس کے بارے میں بلاجھجھک بات کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں اس طرح کی بات چیت قابل قبول نہیں ہے‘ حال ہی میں ملک بھر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہراساں کئے جانے کی مزید اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ یہ ہراساں کرنے کا واقعات امتحانات کے دوران پیش آتے ہیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ خوش آئند ہے کہ اب خواتین اپنے خلاف جرائم پر خاموش نہیں رہتیں بلکہ بولتی ہیں شاید مستقبل میں ہم ایک ایسا معاشرہ بن سکتے ہیں جہاں خواتین کے خلاف تشدد پر بات کرنے اور اس حوالے سے بات چیت کو زیادہ توجہ سے سنا جائے۔ پاکستان کو لڑکوں اور لڑکیوں دونوں پر عصمت دری اور جنسی حملوں جیسے انتہائی سنگین معاملہ سے نمٹنے کی ضرورت ہے اور ایک ایسا معاملہ جو ہمارے معاشرے میں وسیع ہو رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ سوشل میڈیا بھی اِس قسم کے جرائم کے پھیلنے کی ایک وجہ ہو۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو ہمیں اس کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور ایسا جلد از جلد کمیشن تشکیل دے کر کرنا چاہئے۔ یہ کمیشن اس بات پر تبادلہ خیال کرے کہ مختلف عمر کے بچوں کو ان کی نصابی کتابوں کے ذریعے اور نصابی اسباق کے ذریعے کس طرح حالات کا بہتر مقابلہ کرنے کیلئے تیار کیا جا سکتا ہے۔ ایسی تعلیم بچوں کیلئے لازمی ہے جس سے اُن میں خوداعتمادی آئے اور حالات کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہوں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: کاملہ حیات۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)