کورونا: چھٹی لہر

کیا پاکستان کورونا وبا کی چھٹی لہر کا سامنا کر رہا ہے؟ اِس سوال کا جواب ہر خاص و عام جاننا چاہتا ہے تاہم اگرچہ اس سوال کی ایک صحافتی قدر بھی ہوسکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کورونا کیسیز میں اضافہ ہو رہا ہے‘ چاہے اسے چھٹی لہر کا نام دیا جائے یا نہ دیا جائے لیکن بہرحال کورونا ایک مرتبہ پھر پھیل رہا ہے اور اِس سے نمٹنے کیلئے بروقت اقدامات کرنے چاہئیں۔ یہ سوال و ضرورت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ عوام کو کورونا وبا کے خلاف حفاظتی اقدامات اپنانے چاہئیں۔پاکستان میں کورونا وبا کے کیسز میں اگرچہ اضافہ ہو رہا ہے تاہم یہ اضافہ نسبتاً ہے اور چوبیس گھنٹوں میں اوسطاً تین سے چار سو کیسز سامنے آ رہے ہیں لیکن یہ بات اِس لئے تشویش کا باعث ہونی چاہئے کیونکہ چند روز پہلے تک چوبیس گھنٹوں میں مریضوں کی تعداد ایک سو سے کچھ زیادہ تھی جو بڑھ کر چارسو کو چھو رہی ہے اور اگر دو ہفتوں کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں کورونا وبا کے متاثرین کی تعداد میں چھ گنا سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے تاہم شکر اِس بات کا کرنا چاہئے کہ کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ متاثرین ہسپتالوں میں داخل ہو رہے ہیں بلکہ ہسپتال میں داخل ہونے والوں کی تعداد کم ہے اور یقینا اِس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے کورونا سے حفاظت کے ٹیکے (ویکسینیشن) لگوا رکھی ہے اور جنہوں نے نہیں لگائی تھی اُنہیں ہسپتال جانے کی نوبت آ رہی ہے۔
 ذہن نشین رہے کہ پاکستان کی پچاسی فیصد سے زائد آبادی یعنی بارہ سال سے زائد عمر کے افراد کو ’کورونا ویکسی نیشن‘ کی دو خوراکیں لگائی جا چکی ہیں اور دو کروڑ سے زائد افراد نے کورونا کی بوسٹر ڈوز بھی لگوا رکھی ہے۔ یہ متاثر کن تعداد ہے‘ خاص طور پر جبکہ کورونا ویکسین درآمد کرنا پڑتی ہے اور تحریک انصاف کا اِس بات کا اعزاز ملنا چاہئے کہ اِس نے کورونا وبا سے نمٹنے کی حکمت عملی وضع کی اور افراتفری پیدا ہونے نہیں دی۔ جن لوگوں میں بنا ویکسی نیشن کورونا کے خلاف مدافعت پائی جاتی ہے وہ ایک خاص حملے کے بعد ہسپتالوں میں داخل ہوتے ہیں۔ جن لوگوں نے کورونا ویکسی نیشن مکمل کروا رکھی ہوتی ہے اُن میں انفیکشن عام طور پر ہلکی رہتی ہے اور وہ شدید بیمار نہیں ہوتے۔ یاد رہے کہ کورونا کے خلاف ویکسینیشن انتہائی اہم ہے لیکن اِس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ کورونا انفیکشن ہونی ہی نہیں چاہئے۔ پاکستان کورونا وبا کو سنبھالنے کیلئے تیار ہو سکتا ہے لیکن اس کا مطلب کسی قسم کی خوش فہمی نہیں ہونا چاہئے۔ مشاہدہ ہے کہ کورونا کی گزشتہ پانچ لہروں سے نمٹنے کے بعد اور ایک چوکس نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے ساتھ اب نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ زیادہ تجربہ کار اور مستحکم ہے اور یہ پاکستان میں کورونا کی آئندہ لہروں سے نمٹنے کیلئے اچھی تیاری رکھتا ہے۔ تشویشناک ہے کہ پاکستان میں پولیمرز چین ری ایکشن (پی سی آر) نامی ٹیسٹنگ میں کمی آئی ہے جبکہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ کسی بھی وبا کو معمولی نہ سمجھا جائے۔
 چوبیس گھنٹوں میں کئے گئے ’پی سی آر‘ ٹیسٹوں کی تعداد 13ہزار  سے 14 ہزار تک ہے جبکہ پی سی آر ٹیسٹ زیادہ سے زیادہ ہونے چاہئیں تاکہ وبا کے پھیلاؤ پر نظر رکھی جا سکے اور درست اعدادوشمار ہی ہمیں اِس قابل بناتے ہیں کہ ہم کورونا کا مقابلہ کرسکیں۔ کورونا وائرس کی موجودہ شکلیں بی اے فور اور بی اے فائیو ہیں۔ پاکستان میں محدود جینیاتی سیکوئنسنگ سہولیات کی وجہ سے صحیح اعداد و شمار معلوم نہیں لیکن ماہر امراض قلب کا اندازہ یہ ہے کہ اِس وبا کا باعث بننے والے جرثوموں کی گردش بڑھ رہی ہے۔ اِس کے پھیلاؤ کی رفتار‘ ہلاکت خیزی اور موجودہ ویکسین کے جوابدہی کے بارے میں شواہد بھی حتمی نہیں ہیں حالانکہ کچھ شواہد موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی اے فور اور بی اے فائیو موجودہ ویکسین لگنے کی صورت میں زیادہ اثر نہیں کرتے۔ پاکستان میں کورونا کیسز کی تعداد میں حالیہ اضافہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ بھارت اور خطے کے دیگر ممالک اور کئی یورپی ممالک و امریکہ میں بھی کورونا وبا میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے چنانچہ اس عالمی وبا کی چھٹی لہر تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ کوئی گھبراہٹ کی بات نہیں بلکہ مضبوط چوکسی ترتیب ہے۔
 این سی او سی کی حالیہ ”ایڈوائزری“ کے مطابق اندرون ملک پروازوں اور ٹرینوں بسوں میں ماسک کو دوبارہ لازمی قرار دے دیا گیا ہے جبکہ آنے والے دنوں یہ پابندیاں مزید سخت ہوسکتی ہیں۔ تجربے سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان میں احتیاطی تدابیر پر کم ہی عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ جب تک حکومت اور عوام متحد ہو کر کام نہیں کرتے اُس وقت تک صرف ایڈوائزری جاری کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ عوام کو اب معاملات ازخود سنجیدگی سے لینے چاہئیں۔ اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ ویکسینیشن کی زیادہ شرح بشمول بوسٹرز ڈوز اور احتیاطی تدابیر کے باوجود کورونا سے حفاظت ہی اِس کے انفیکشن کے پھیلاؤ کو روک سکتا ہے یا قابو میں رکھ سکتا ہے۔ اگر وائرس پھیل بھی جائے تب بھی شدید کیسز کم ہوں گے لیکن کورونا وبا میں غیر متوقع طور پر حملہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور یہ بار بار حملہ کرتا ہے۔ عوام کو چاہئے کہ وہ گھروں کے اندر بھی غیر ضروری میل جول سے گریز کریں۔ کھڑکیوں کو کھلا رکھا جائے اور تازہ ہوا کی آمدورفت کمروں میں یقینی بنائی جائے۔ بند جگہوں پر ماسک پہن کر جایا جائے بالخصوص ایسی جگہوں پر کہ جہاں لوگ ایک دوسرے کے قریب بیٹھے ہوں۔ جن لوگوں نے کورونا وبا کی پہلی دو خوراکیں ابھی تک نہیں لگوائیں اُنہیں اپنی ویکسینیشن کا کورس مکمل کر لینا چاہئے اور اگر کسی نے دو خوراکیں لگا رکھی ہیں تو اُسے چاہئے کہ وہ بوسٹرز ڈوز لگوا لے۔ توجہ طلب ہے کہ یہ وقت ہوشیار اور کورونا سے محفوظ رہنے کا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ظفر مرزا۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)