گزشتہ کئی سالوں کے دوران یہ واضح ہو گیا ہے کہ بین الاقوامی موسمیاتی مذاکرات موسمیاتی بحران سے نمٹنے میں ناکام ہو رہے ہیں‘ موجودہ پالیسیوں نے ہمیں اس صدی میں 3.2 ڈگری سیلسیس (5.76F)گرمی کیلئے ٹریک پر رکھا ہے دوسرے لفظوں میں، موجودہ نسل کا مستقبل شدید مصائب اور نقل مکانی سے عبارت ہوگا‘ مغربی معیشتیں اس بحران کی بہت زیادہ ذمہ دار ہیں‘ انہوں نے 90فیصد سے زیادہ اضافی اخراج میں حصہ ڈالا ہے جو موسمیاتی خرابی کا باعث بن رہے ہیں۔ جبکہ اس کے اثرات تمام ممالک پر پڑتے ہیں، جو پہلے ہی گرمی کی لہروں، خشک سالی، سیلاب، فصلوں کی ناکامی اور انسانی نقل مکانی کا شکار ہیں‘ آب و ہوا کا بحران نوآبادیاتی خطوط پر چل رہا ہے۔گلوبل ساؤتھ میں سیاسی رہنما اور سماجی تحریکیں ان حقائق سے آگاہ ہیں‘ برسوں سے، وہ گلوبل نارتھ کی حکومتوں سے مزید ڈرامائی کاروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جن کا فی کس اخراج باقی دنیا سے کہیں زیادہ ہے‘ لیکن نتائج جوں کے توں ہیں۔مغربی حکومتوں میں سے کوئی بھی پیرس معاہدے کے اہداف میں اپنے منصفانہ حصہ کو پورا کرنے کے راستے پر گامزن نہیں ہے۔ کیوں؟ کیونکہ کافی تیزی سے اخراج میں کمی کو حاصل کرنے کیلئے امیر معیشتوں کو اپنی توانائی کے استعمال کو ڈرامائی طور پر کم کرنے کی ضرورت ہوگی۔
اس طرح کے توانائی کے استعمال کو منظم کرنے کیلئے، امیر قوموں کو سرمایہ دارانہ ترقی کو ایک مقصد کے طور پر ترک کرنا ہوگا اور ترقی کے بعد، سرمایہ داری کے بعد کے نظام کی طرف منتقل ہونا ہوگا، جہاں پیداوار اور توانائی کے استعمال کو اشرافیہ کے جمع کرنے کے بجائے انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے منظم کیا جاتا ہے‘اس بات کا امکان نہیں ہے کہ مغربی حکومتیں رضاکارانہ طور پر ایسا کریں گی۔ ہم امید کر سکتے ہیں کہ آب و ہوا کی تحریک انہیں آگے بڑھائے گی، لیکن تحریک خود اس مسئلے پر منقسم ہے، ایک بڑا دھڑا معمول کے مطابق ترقی پر اصرار کر رہا ہے۔سمجھنے کی اہم بات یہ ہے کہ مغربی معیشتیں اور ان کی اقتصادی ترقی کا مکمل انحصار جنوب کی محنت اور وسائل پر ہے۔ یہ نوآبادیاتی دور میں واضح تھا، اور یہ آج بھی سچ ہے۔ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں لاکھوں ایکڑ اراضی، دسیوں ہزار فیکٹریاں، اور مزدوروں کی بڑی تعداد موجود ہے‘جو مغربی اجارہ داریوں کی خدمت کرتی ہے، انہیں پام آئل سے لے کر پٹرولیم، کمپیوٹر چپس سے لے کر سمارٹ فونز تک ہر چیز فراہم کرتی ہیں۔
اس کا نتیجہ جنوب سے باہر وسائل کا ایک بڑا خالص بہا ؤہے، جو مغربی جی ڈی پی کے 25فیصد کے برابر ہے‘ ان صلاحیتوں کو مقامی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے رہائش، خوراک اور صحت کی دیکھ بھال کیلئے لیکن اس کے بجائے، ان کو مغربی سرمائے کے ذریعے مختص کیا جاتا ہے۔ مختصراً، انہوں نے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اپنے وسائل اور محنت کو متحرک کیا، اور نوآبادیاتی دور کے بعد کے دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کی طرف بڑھ گئے‘ جنوبی خودمختاری کی تحریک اس حد تک کامیاب رہی کہ اس نے مغربی سرمایہ داری کیلئے ایک سنگین خطرہ لاحق کر دیا، کیونکہ اس نے سستی محنت اور وسائل تک ان کی رسائی کو منقطع کرنا شروع کر دیا‘اب، نصف صدی بعد، جنوب ایک ایسی پوزیشن میں ہے جہاں اسے دوبارہ اس انقلاب کی کوشش کرنی چاہئے‘ وہ یہ زرعی اصلاحات اور خوراک کی خودمختاری کے ذریعے کر سکتے ہیں۔ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کی تعمیر کے ذریعے؛ اور صنعتی پیداوار کو گھریلو ضروریات کی فراہمی کی طرف منتقل کر کے‘ ان اقدامات سے جنوبی ممالک کو اپنی زمین اور وسائل پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنیکا موقع ملے گا، جس سے مغربی درآمدات اور مغربی کرنسیوں پر ان کا انحصار ڈرامائی طور پر کم ہو جائے گا۔معاشی خودمختاری کی طرف قدم اٹھانے اور مغربی سرمائے سے بتدریج ڈی لنک ہونے سے عالمی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہونگے۔ بشکریہ دی نیوز۔تحریر: جیسن ہیکل، ترجمہ:ابوالحسن امام)