پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز (پی آئی پی ایس) معاشرے میں تنوع اور شمولیت کے فروغ کے لئے کام کر رہا ہے۔ اس کی حالیہ مشاورتی نشست ”نوجوانوں میں تنوع‘ شمولیت اور امن کے بیانیے کو فروغ دینا“ کے عنوان سے اسلام آباد میں منعقد ہوئی جس میں اے ایچ نیئر‘ خالد مسعود‘ خورشید ندیم‘ پرویز ہودبھائی‘ ڈاکٹر قبلہ ایاز‘ رومانہ بشیر اور مختلف دیگر شعبوں کے ماہرین نے شرکت کی۔ تقریب نے شرکاء کو موضوع کے حوالے سے مقالے سننے کے علاوہ اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع بھی فراہم کیا گیا۔ اِس موقع پر ڈاکٹر اے ایچ نیئر نے پاکستانی بیانیے کے تعلیمی پہلوؤں پر زیادہ توجہ مرکوز کی۔
انہوں نے یکساں نصاب تعلیم یعنی سنگل نیشنل کریکولم (ایس این سی) کی مثال دی کہ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کا یہ اقدام کسی حد تک کامیاب رہا۔ ڈاکٹر نیئر یکساں نصاب تعلیم کے سخت نقادوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر خالد مسعود سپریم کورٹ آف پاکستان میں شرعی اپیلیٹ بنچ کے جج ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں معیاری اور مقداری تحقیق کے درمیان منقطع ہونے والے تعلق کے بارے میں بات کی۔ ملک کی زیادہ تر جامعات معیار کی قیمت پر مقداری تحقیق کر رہی ہیں۔ وہ اپنے جائزے سے اِس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ معاشرے میں معیاری تبدیلیاں نہیں ہو رہیں۔ ڈاکٹر مسعود نے تجویز پیش کی کہ جمہوریت اور آئین پر بات چیت کے لئے ان تصورات کی معیاری تفہیم کی ضرورت ہے اور یہی بات شہریت کی تعلیم پر بھی لاگو ہوتی ہے جو پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ترجیح ہونی چاہئے۔ خورشید ندیم نامور اسلامی عالم ہیں اور شائستگی کی وجہ سے خود کو اسلامی تاریخ اور نظریے کے طالب علم کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔ وہ اردو زبان کے مصنف ہیں۔ مذہب کی تفہیم کے حوالے سے انہوں نے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر پرویز ہودبھائی نے پاکستان کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین کی سرگرمیوں کی حمایت کی۔ ان کے نزدیک انجمنوں اور یونینوں میں طلبہ کی شمولیت انہیں سیاسی مکالمے میں تعمیری مکالمہ کار کے طور پر تربیت دیتی ہے۔ انہوں نے نشان دہی کی کہ فیکلٹی ممبران کی اکثریت اپنے تخصیص کے شعبوں میں بھی بنیادی تصورات کی بنیادی تفہیم سے محروم ہے۔ یہ ایک وجہ ہے کہ یونیورسٹی کے گریجویٹس کے پاس ڈگریاں ہیں لیکن اطلاقی اور سماجی سائنسز میں کوئی مہارت نہیں ہے۔ کیو اے یو سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر علی نے پاکستانی تعلیمی نظام کی جانب سے سیکھنے اور تدریس کے حوالے سے طلبہ پر مرکوز نقطہ نظر پر عمل کرنے میں ناکامی کے بارے میں بات کی۔ زیادہ تر فیکلٹی ممبران اپنے اپنے شعبوں میں ڈگریاں رکھتے ہیں لیکن تدریسی طریقوں کی خاطرخواہ تربیت نہیں رکھتے ہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ عملی مہارتیں حاصل کئے بغیر کسی کو بھی تدریس کی ذمہ داری نہیں سونپی جانی چاہئے اور کلاس روم کے تعامل اور تدریس کی اخلاقیات کا نظریاتی علم حاصل کیا جانا چاہئے۔ ترقی کا نظام جس کے لئے دس سال کے تجربے اور پندرہ شائع شدہ مقالات کی ضرورت ہے ناقص ہے اور اس پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور مفکر ہیں۔ انہوں نے کیمپسوں میں تشدد کے رویے کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور تجویز دی کہ مذہب کے حوالے سے تعلیم کے بارے میں زیادہ متحرک تفہیم کی ضرورت ہے ۔ اگرایسا نہ کیا گیا تو ہم دائروں میں چلتے رہتے ہیں اور معاشرہ خود عدم روادار ہو جائے گا۔ مذہب کی وسیع تر تفہیم کے لئے تعمیری مباحثے ہونے چاہیئں۔ متشددانہ رویہ ایک واضح اور موجودہ خطرہ ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ رومانہ بشیر انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کی کارکن ہیں جنہوں نے پاکستان میں ہم آہنگی اور امن کے فروغ کے لئے اپنی زندگی کے کم از کم پچیس سال خرچ کئے ہیں۔ انہوں نے تعلیم میں باہمی احترام کی اہمیت پر روشنی ڈالی تاکہ طلبہ ایک عدم روادار کی بجائے روادار اور وطن دوست شہری کی حیثیت سے بڑے ہوں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اساتذہ کو طلبہ کے ساتھ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے خصوصی تربیت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے معاشرے میں ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے کافی کام نہ کرنے کی ذمہ دار سیاسی جماعتوں کو بھی ٹھہرایا۔ مذکورہ تقریب میں شرکا کو تحقیقی رپورٹ بھی دی گئی جو ”پاکستانی نوجوانوں میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے“ سے متعلق ہے۔ایک غیر منتظم معاشرہ تعمیر کی بجائے تخریب کا باعث بنتا ہے۔ جس کی وجہ سے قانون کی حکمرانی بھی متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کی حکومتیں جو نوجوانوں سے متعلق حکمت عملیاں تیار کرتی ہیں وہ عام طور پر جامع نہیں ہوتیں۔ تعلیمی پالیسیاں بھی ایسی ہی سطحی ہوتی ہیں کہ اِن میں لمبے لمبے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن عملاً ناکام رہتی ہیں۔ یہ پالیسیاں سوچ کی کسی بھی وضاحت سے زیادہ ابہام پیدا کرتی ہیں جس کو دور کرنا ضروری ہے۔ پالیسی جتنی زیادہ غیر شفاف ہوگی‘ اس کی ناکامی کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر نذیر محمود۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)