بچوں کا تحفظ

دنیا کے بیشتر حصوں میں بچوں کے حقوق کا تحفظ صرف والدین یا سرپرست ہی نہیں بلکہ حکومت اور معاشرہ کرتا ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کے مراحل سے ملازمت یا روزگار تک ریاست شانہ بشانہ کھڑی رہتی ہے لیکن  بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس حوالے سے حالات کچھ مثالی نہیں۔  سب سے پہلے تو بچے کی عمر کا تعین ہی وہ اہم مرحلہ ہے جہاں سقم موجود ہیں۔ پیدائش کا سرٹیفکیٹ‘ تعلیمی ادارے کی دستاویزات اور والدین کی شادی کی اسناد سے تفصیلات حاصل کی جاتی ہیں۔ عمر کے تعین کیلئے طبی معائنہ بھی کیا جاتا ہے جبکہ سن بلوغت تک پہنچنے کی تشخیص ریڈیولوجیکل اوسیفیکیشن ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں اِس قسم کے ٹیسٹنگ کے لئے تربیت یافتہ عملہ انتہائی کم ہے۔ جو جونیئر ڈاکٹر یا معاون طبی عملہ مذکورہ ٹیسٹنگ کرتے ہیں اور کی جانچ قابل اعتماد نہیں ہوتی۔ بہرحال ایک طبی جانچ کے نتائج میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہوتے ہیں جہاں ایک سے زیادہ سینئر ڈاکٹر مختلف ٹیسٹنگ کے نتائج کی بنیاد پر کسی نتیجے تک پہنچتے ہیں۔ کیا یہی مناسب وقت نہیں ہے کہ بچوں کیلئے انصاف کا مطالبہ کیا جائے؟  ایک بچہ نوعمری کے آخری مرحلے میں جسمانی طور پر پختہ ہوسکتا ہے لیکن اِس کے دماغ کی علمی نشوونما‘ تجریدی سوچ اور مناسب استدلال بیس برس کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ ابتدائی اور درمیانی نوعمری میں طبیعت اضطراب سے دوچار رہتی ہے اور بچے مستقبل کے بارے میں سوچے بغیر کوئی بھی کام کر گزرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ”گرومنگ“ کا عمل کیا جاتا ہے اُور ایسے کم عمر بچوں کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے جو ذہنی و جسمانی تبدیلیوں کے دور سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ صورتحال کا یہ پہلو بھی پیش نظر رہے کہ کم عمری میں بچے باآسانی گمراہ ہوتے ہیں اور انٹرنیٹ وسائل کا استعمال کرکے بچوں کو باآسانی شکار بھی کیا جا سکتا ہے۔ بچوں کی گرومنگ ذاتی طور پر‘ آن لائن‘ سوشل میڈیا یا گیمنگ پلیٹ فارمز پر بھی ہونی چاہئے۔ ڈارک ویب اس قسم کی سرگرمیوں کیلئے بدنام ہے۔ مجرم متاثرہ شخص کا اعتماد حاصل کرتے ہیں اور انہیں توجہ دے کر لبھاتے ہیں اور انہیں اپنے ساتھ بھاگنے (اغوا کرنے) پر راضی کرتے ہیں۔ اکثر وہ نہ صرف افراد ہوتے ہیں بلکہ ایک پورا گروہ اِس کام میں ملوث ہوتا ہے اور بچوں کی سمگلنگ بھی یہی مافیا کرتا ہے۔ تحقیق سے علم ہوا ہے کہ ذہنی صحت کے مسائل اور گھریلو تشدد کا بڑھتا ہوا خطرہ بھیگھر سے بھاگنے کی وجوہات میں سے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں بچوں کے تحفظ کیلئے قوانین موجود نہیں ہیں بلکہ قوانین تو موجود ہیں لیکن اُن کے نفاذ کی صورت خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ وقت آگیا ہے کہ بچوں سے متعلق موجود قوانین پر اِن کی روح کے مطابق عمل کیا جائے اور وہ عالمی قوانین و قواعد یا معاہدے جن کی پاکستان توثیق کر چکا ہے اُن پر بھی عمل درآمد کیا جائے تاکہ بچوں کی حفاظت‘ صحت مند ترقی‘ وقار اور مفادات کی کماحقہ حفاظت کی جا سکے۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: کشور انعام۔ ترجمہ: ابوالحسن اِمام)