Rebuilding human capital
پاکستان کو اپنی موجودہ حیثیت بہتر بنانے اور آبادی کی اکثریت کی ترقی اور فلاح و بہبود کے فوائد کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کیلئے انسانی سرمائے کی ترقی سے متعلق حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے‘ اِن حکمت عملیوں کیلئے وفاقی‘ صوبائی اور مقامی حکومتوں کے علاؤہ نجی شعبے‘ اکیڈمیا‘ تھنک ٹینکس‘ میڈیا‘ غیر منافع بخش تنظیموں اور والدین کی مؤثر ہم آہنگی اور ملکیت کی ضرورت ہے‘ شروع میں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ وہ اہم رکاوٹ ہے جس نے پاکستان کو انسانی سرمائے کے شعبے میں کوئی اہم پیش رفت نہیں کرنے دی ہے‘ تصوراتی سطح پر‘ دی جانیوالی ترجیحات‘ مختص کئے جانیوالے وسائل اور اہم اسٹیک ہولڈرز میں تقسیم کئے جانیوالے کرداروں کے بارے نظریات و خیالات (حکمت عملیوں) میں بہت فرق ہے۔ تعلیمی اور صحت اصلاحات کے مخصوص شعبوں کے ماہرین چاہتے ہیں کہ انکی ماہرانہ رائے کو خصوصی طور پر قبول کیا جائے‘ ایک ایسے معاشرے میں تعمیری مکالمہ اور اتفاق رائے پیدا کرنا مشکل ہو گیا ہے جہاں پولرائزیشن (قطبیت) گہری ہو چکی ہے اور رواداری اور اعتماد نایاب ہو چکے ہیں‘ واحد قومی نصاب کا حالیہ معاملہ ملک میں اِن مروجہ رجحانات کی روشن مثال ہے اس منصوبے میں کی جانیوالی تمام کوششیں ناکام ہونے کا امکان ہے کیونکہ نئی حکومت اسے ٹھیک کرنے اور اس کی خامیوں کو دور کرنے کے بجائے ترک کر سکتی ہے کیونکہ اگر یہ کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا کریڈٹ پچھلی حکومتوں کو جائیگا جبکہ موجودہ حکومت مختلف ترجیح (مختلف لائحہ عمل) پر عمل پیرا ہوسکتی ہے۔انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری کے مثبت اثرات کئی دہائیوں بعد محسوس کئے جاتے ہیں لیکن سیاسی قیادت چاہتی ہے کہ انکے دور میں کچھ ٹھوس ظاہر ہو‘ یہی وجہ ہے کہ بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی گراؤنڈ بریکنگ اور افتتاح بہت سحر انگیز ہوتا ہے اور سب سے زیادہ توجہ کیساتھ ساتھ بجٹ کے وسائل بھی سیاسی جماعتیں قلیل المدتی ترقیاتی منصوبوں کی نذر کرتی ہیں۔ ذیل میں دی گئی تجاویز کو تحقیقی مطالعات‘ فیلڈ مشاہدات اور اصلاحاتی کمیشنوں اور ٹاسک فورسز کی طرف سے اسٹیک ہولڈرز کیساتھ وسیع مشاورت کے بعد اخذ کیا گیا ہے سب سے پہلے‘ حکومت کے مختلف درجوں کے درمیان ذمہ داریوں کو واضح طور پر تقسیم کیا جائے‘ اداروں کو مربوط کیا جائے اور اداروں کی کارکردگی کے درمیان فرق ختم کیا جائے۔ تعلیم اور صحت کی فراہمی کیلئے حکمرانی اور انتظامی نظام کی تشکیل نو ضروری ہے وفاقی حکومت کو اپنے دائرہ کار کو اعلیٰ تعلیم اور قومی صحت کے پروگراموں یعنی جامعات اور تعلیم کے دیگر قومی مراکز‘ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ‘ ریگولیٹری اتھارٹیز‘ ٹیسٹنگ لیبارٹریوں اور ایکریڈیشن تک محدود رکھنا چاہئے‘ صوبائی حکومتوں کو اپنے آپ کو کالجوں‘ تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیت‘ تیسرے درجے کے ہسپتالوں اور طبی تدریسی اداروں تک محدود رکھنا چاہئے جبکہ ضلعی حکومتوں کو میٹروپولیٹن‘ میونسپل کارپوریشنز اور میونسپل کمیٹیوں کو کے جی‘ پرائمری سے اعلیٰ ثانوی سطح تک‘ پرائمری ہیلتھ کیئر‘ بنیادی صحت یونٹس‘ دیہی صحت مراکز‘ تحصیل ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں اور ضلعی اور میونسپل ہسپتالوں تک تعلیمی ادارے چلانے چاہئیں ضلعی تعلیم اور صحت حکام کو معیاری ترتیب‘ نجی اور غیر منافع بخش سکولوں‘ ہسپتالوں اور کلینکوں کی نگرانی اور معائنہ کیلئے ذمہ دار ہونا چاہئے‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اپنے بورڈ آف مینجمنٹ ہونے چاہئیں‘اہم بات صنفی تفاوت کم کرنا ہے اور خواتین کے اندراج کے تناسب اور خواندگی کی شرح کو مردوں کے مقابلے میں مساوی یا زیادہ کرنا ہے‘خواتین کی تعلیم میں زیادہ منافع کے بارے میں شواہد اتنے ناقابل تسخیر اور خارجی ہیں کہ ان کیلئے گرانٹ‘ وظائف اور محفوظ نقل و حمل کے انتظامات کرنے پڑتے ہیں‘بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے تحت طالبات کیلئے مشروط نقد منتقلیوں کی تخصیص (تعلیمی وظائف) میں اضافہ کیا جانا چاہئے (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عشرت حسین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)