پاکستان کے سامنے 2 سوالات کھڑے ہیں۔ پہلا یہ کہ کیا اِسے عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کا قرض لینا چاہئے؟ اور دوسرا یہ کہ کیا اِسے عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کا قرض نہیں لینا چاہئے؟ اِن سوالات اور کسی ایک جواب کے انتخاب کے ساتھ درجنوں ضمنی سوالات جڑے ہوئے ہیں اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اگر پاکستان ’آئی ایم ایف‘ سے قرض نہیں لیتا تو ایسا کرنا اِس کیلئے زیادہ خرابیوں کا مجموعہ ہوگا۔پاکستان میں مہنگائی عروج پر ہے۔ کنزیومر پرائس انڈیکس چودہ سال کی بلند ترین سطح پر ہونے کی وجہ سے پالیسی ریٹ جو کہ اِسی قسم کے حالات سے دوچار سری لنکا کے مقابلے میں صرف نصف فیصد ہی کم ہے۔ سب سے زیادہ تجارتی خسارہ‘ روپے کی تاریخی طور پر کم شرح تبادلہ اور مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی جیسے اعداد و شمار اپنی جگہ حقیقت کے طور پر کھڑے ہیں۔ گزشتہ پانچ ہفتوں سے بھی کم درآمدی بل میں پاکستان اپنے ’آئی ایم ایف‘ توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کا بے صبری سے انتظار کر رہا ہے۔ اس پروگرام کی بحالی کے بغیر پاکستان نہ تو دیگر کثیر الجہتی اداروں اور نہ ہی دوست ممالک سے بیرونی مالی اعانت حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح آئی ایم ایف کی جانب سے تسلی کے خط کے بغیر پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بھی منفی رہے گی۔ وفاقی کابینہ کے مختلف اراکین گزشتہ چند ہفتوں سے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ’آئی ایم ایف‘ پروگرام کی بحالی میں صرف چند دن باقی ہیں۔
یہ بات تسلیم کرنی چاہئے کہ اگرچہ تاخیر کے ساتھ اور اپنا سیاسی سرمایہ داؤ پر لگا کر مخلوط حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا تکلیف دہ فیصلہ کیا ہے تاہم صرف تیل کی سبسڈی ختم کرنے سے ’آئی ایم ایف‘ پروگرام دوبارہ شروع کرنے میں مدد نہیں ملے گی۔ ’آئی ایم ایف‘ بیل آؤٹ پیکج سے فائدہ اٹھانے کیلئے‘ کسی ملک کو دو قسم کے وعدے کرنے ہوتے ہیں۔ مقداری اہداف (جسے کارکردگی کے معیار اور اشاریہ اہداف کے طور پر جانا جاتا ہے)۔ یہ زیادہ تر گھریلو کرنسی میں ہوتا ہے لیکن اِسے امریکی ڈالر میں دیکھا جاتا ہے اور سرکاری اداروں کا ڈھانچہ جاتی معیار (یعنی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے کس قدر ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی جاتی ہیں)۔ اِن وعدوں پر عمل درآمد کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے اور ’آئی ایم ایف‘ کے ایگزیکٹو بورڈ کو اِس متعلق رپورٹ پیش کی جاتی ہے جس میں یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ قرض کی قسط جاری کی جائے یا نہیں۔ جب تک ’آئی ایم ایف‘ بورڈ کسی ملک کو چھوٹ کی منظوری نہیں دیتا‘ وہ اپنے طور پر چھوٹ (سبسڈی) نہیں دے سکتا۔
گزشتہ مالی جائزے (فروری 2022ء چھٹے جائزے) کے دوران آئی ایم ایف نے پاکستان کی مجموعی کارکردگی کو ”ناہموار“ قرار دیا تھا۔ پاکستان نے چودہ میں سے چار مقداری اہداف کے علاوہ دیگر تمام اہداف حاصل کر لئے تھے تاہم عمل درآمد میں خاص طور پر مالیاتی اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے ایجنڈے میں بڑا خلا موجود تھا‘ اِس دوران صرف ایک ڈھانچہ جاتی بینچ مارک بروقت پورا کیا گیا جبکہ پانچ کو تاخیر کا سامنا رہا اور سات پورے نہیں کئے جا سکے۔ جائزے میں کہا گیا کہ یہ خلا چیلنجنگ حالات کے درمیان پیدا ہوئے جن میں کورونا وبا اور افغانستان سے پھیلنے والی وبائیں شامل ہیں۔ قرض کی چوتھی قسط حاصل کرنے کیلئے پاکستان نے کچھ چھوٹ حاصل کی اور نومبر 2021ء سے جنوری 2022ء کے دوران آئی ایم ایف کے پانچ پیشگی مطالبات کو پورا کیا۔ منی بجٹ (جی ایس ٹی اصلاحات کے ساتھ فنانس بل) منظور کیا گیا۔ حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر ترقیاتی لیوی میں اضافہ کیا۔ سٹیٹ بینک ایکٹ میں ترمیم کی گئی۔ مالی سال 2020ء کے دوران کوویڈ سے متعلق رسد اور سماجی ادائیگیوں کی خریداری کا ایکس پوسٹ آڈٹ پاکستان کے آڈیٹر جنرل نے کیا اور پی پی آر اے کی ویب سائٹ پر کوویڈ سے متعلق خریداری کے معاہدوں سے متعلق اہم معلومات عام کی گئیں۔
قرض کی چوتھی قسط ملنے کے بعد حکومت نے توانائی کے شعبے کے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے وعدے سے انحراف کیا اور ایندھن و بجلی قیمتوں پر رعایت (سبسڈی) کا اعلان کر دیا۔ پی ٹی آئی حکومت نے یہ سبسڈی پانچ ہفتوں (یکم مارچ سے نو اپریل) تک فراہم کی یہاں تک کہ وہ قومی اسمبلی میں اکثریت کھو بیٹھی اور مخلوط حکومت اقتدار میں آ گئی۔ جزوی طور پر توانائی کی سبسڈی اور دیگر وعدے پورے نہ کرنے پر ’آئی ایم ایف‘ نے پریشانی و تشویش کا اظہار کیا۔ موجودہ وزیر خزانہ نے واشنگٹن جا کر ’آئی ایم ایف‘ کے فیصلہ سازوں (ایگزیکٹو ڈائریکٹرز) سے ملاقات کی۔ اپریل 2022ء میں ہوئی اِس ملاقات کے بعد مئی 2022ء میں ملاقات دوحا (قطر) میں ہوئی اور ’آئی ایم ایف‘ کے عملے کی سطح کے اجلاسوں کے دوران بغیر کسی بات کے ان سبسڈیز کو واپس لینے کا عہد کیا گیا تاہم مخلوط حکومت کو اتحادیوں کو اعتماد میں لینے اور توانائی کی سبسڈی چھوڑنے میں نو ہفتے (10اپریل سے 15جون) لگے۔ اس تاخیر سے نہ صرف مخلوط حکومت کو زرمبادلہ ذخائر میں کمی کی صورت ڈالروں کا نقصان ہوا بلکہ مہنگا ایندھن درآمد کرنے اور روپے کی قدر میں کمی جیسے نقصانات بھی ہوئے اور پاکستان کی ساکھ کو الگ سے نقصان ہوا۔
’آئی ایم ایف‘ کے اعلیٰ ترین عہدیداروں (ایگزیکٹو بورڈ) کو اپنے الفاظ دینے کے باوجود بھی حکومت اپریل میں توانائی کی سبسڈی واپس نہیں لے سکی۔ حکومت اور ’آئی ایم ایف‘ کے درمیان اعتماد کا خسارہ اس وقت مزید بڑھ گیا جب وفاقی بجٹ مالی سال 2022-23ء پیش کیا گیا جو آئی ایم ایف سے کئے گئے وعدوں کے مطابق پالیسی اقدامات کا مجموعہ نہیں ہے۔ یہ وعدے پاکستان نے دوحا (مئی دوہزاربائیس) کئے۔ دیگر کے علاؤہ ’آئی ایم ایف‘ کو وفاقی بجٹ میں پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی‘ انکم ٹیکس کی شرح میں تبدیلی اور صوبائی سرپلس اہداف کے بارے میں خدشات تھے۔نتیجتاً ’آئی ایم ایف‘ کے تحفظات دور کرنے کیلئے پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کئے جانے سے قبل وفاقی بجٹ پر نظر ثانی کی گئی۔ پنجاب حکومت کی جانب سے لائف لائن صارفین کو مفت بجلی فراہم کرنے کے حالیہ اعلان (اگرچہ ضمنی انتخابات تک الیکشن کمیشن آف پاکستان نے روک دیا تھا) نے حکومت اور ’آئی ایم ایف‘ کے درمیان اعتماد کو مزید ختم کردیا ہے۔ ’آئی ایم ایف‘ ٹارگٹیڈ سبسڈی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے لیکن مالی عدم توازن پر اس طرح کے اقدامات کے مضمرات پر پیشگی مشاورت کی توقع بھی رکھتا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے‘ ایندھن کی سبسڈی واپس لینا آئی ایم ایف کے پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کے اقدامات میں سے ایک ہے۔
اس کے بعد بجلی اور گیس کے محصولات میں اضافہ کیا جائے گا تاکہ توانائی کی مکمل لاگت (پیداواری) اخراجات کی وصولی ہو سکے۔ توانائی اصلاحات کے علاوہ دیگر اہم شرطوں میں وفاقی حکومت کے ساتھ مفاہمت نامے کے ذریعے صوبائی حکومتوں سے یہ عہد حاصل بھی شامل ہے کہ وہ (صوبے) اپنے اخراجات میں کمی لائیں گے۔ موجودہ قرضوں (بنیادی بجٹ بیلنس) کیلئے نئے قرضوں کا زیادہ سے زیادہ حصہ خرچ کرنا‘ سٹیٹ بینک کی ری فنانس سہولیات ختم کرنے میں مدد کیلئے ایک مناسب ترقیاتی مالیاتی ادارہ قائم کرنے کے منصوبے کی تیاری‘ آئی ایم ایف کی سفارشات کے مطابق نئے قانون کی پارلیمان سے منظوری‘ اوگرا ایکٹ میں ترامیم کسی پارلیمنٹ سے منظوری (ریگولیٹر کو ایندھن کی قیمتوں کا تعین کرنے کی خود مختاری)‘ نئے ترجیحی ٹیکس یا چھوٹ جاری کرنے سے گریز اور توانائی سبسڈی اصلاحات کے دیگر مراحل کی کابینہ سے منظوری کچھ دیگر ایسی ڈھانچہ جاتی شرائط کا حصہ ہیں جن کو حکومت کو بہرصورت پورا کرنا ہے۔ طرز حکمرانی کی اصلاح‘ انسداد بدعنوانی اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات بھی اسی میں شامل ہیں۔ اعلیٰ سطحی سرکاری عہدیداروں (گریڈ سترہ سے بائیس کے سرکاری ملازمین‘ منتخب اور وفاقی کابینہ کے غیر منتخب اراکین) کو اپنے اثاثے ظاہر کرنا بھی اِنہی شرائط کا حصہ ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ حکومت مزید تاخیر کے بغیر بیان کردہ و دیگر شرائط پوری کرنے کیلئے کام کر رہی ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عابد قیوم سلہری۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)