حکومت پاکستان عام آدمی کی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کے کسی ایک اقدام کا ہر خاص و عام کی زندگی پر کچھ نہ کچھ اثر ضرور پڑتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والی تقریبا ًتمام بجلی حکومت خریدتی ہے۔ یہ بجلی بعدازاں 10 تقسیم کار کمپنیاں اور چھ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں کے ذریعے فروخت کی جاتی ہے۔ ایک عام صارف بجلی کا کنکشن چاہے تو اُسے حکومت کے پاس جانا ہوتا۔ اِسی طرح گیس کنکشن کیلئے بھی حکومتی ادارے ہی کو درخواست دینا پڑتی ہے۔ حکومت پاکستان سترہ بینکنگ ادارے‘ سات انشورنس کمپنیاں اور نو ترقیاتی مالیاتی ادارے (ڈی ایف آئی) چلا رہی ہے۔ حکومت پاکستان چار ایوی ایشن کمپنیاں‘ تیئس بندرگاہیں اور شپنگ ادارے‘ تین تجارتی کمپنیاں‘ پانچ کیمیائی کمپنیاں اور پندرہ انجینئرنگ ادارے بھی چلاتی ہے۔ حکومت پاکستان ’پروموشن اور ایڈووکیسی‘ کمپنیوں کی بھی مالک ہے۔
وائس چانسلر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) ڈاکٹر ندیم الحق نے ”معیشت پر حکومت کے اِس طرح اختیارات و اقدامات کے عنوان سے ایک تحقیق کی ہے جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ ”پاکستان میں معیشت پر حکومت کا اختیار اور عمل داری زیادہ ہے جو ملک کی خام قومی آمدنی (جی ڈی پی کا بائیس فیصد) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے اخراجات زیادہ ہیں اور بہت سے سرکاری ادارے خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ تقریباً 200 سرکاری ادارے‘ پاکستان کی معیشت کا قریب 67فیصد ہیں۔پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی قیادت میں موجودہ حکومت معیشت کو متحرک کرنے اور سرکاری خزانے پر اداروں کا بوجھ کم کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا نواز لیگ اپنی اِس کوشش میں کامیاب ہوگی جبکہ اِس کی اتحادی جماعتیں رضامند نہ ہوں؟ جب تک حکومت نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری نہیں کرے گی اُس وقت تک بوجھ میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
پاکستان کی معاشی ترقی سست روی سے آگے بڑھے گی جبکہ ضرورت تیزی کی ہے تاکہ بے روزگاری پر قابو پایا جا سکے اور آمدنی کے قومی وسائل سے زیادہ بہتر استفادے کے ساتھ سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنائی جا سکے۔قومی ترقی اور قومی معیشت کے حجم پر بدعنوانی کا بھی ”گہرا اثر“ ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ایک تجرباتی مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر حکومت نجی شعبے کی صلاحیت اور وسائل پر انحصار نہیں کرے گی اور خدمات کی فراہمی کے شعبے میں سارے کام خود سرانجام دینے کی کوشش کرے گی تو اِس سے بدعنوانی کے امکانات بھی زیادہ ہوں گے اور یقینی طور پر بدعنوانی کسی بھی ملک کی معاشی ترقی اور وہاں کی معاشی سرگرمیوں پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ پاکستان کی ضرورت ہے کہ معیشت میں نمو ہو تاکہ قوت خرید بڑھے اور مہنگائی کا منفی اثر کم سے کم ہو‘ جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں دکھائی دیتا ہے لیکن اِس کے برعکس پاکستان میں معاشی شرح نمو کم ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کا اثر کم آمدنی والے طبقات زیادہ محسوس کر رہے ہیں۔
1970ء میں پاکستان کی خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں گیارہ فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔ 1997ء اور پھر 2010ء میں ’جی ڈی پی‘ کی شرح نمو میں بالترتیب ایک فیصد اور ایک اعشاریہ چھ فیصد جیسا انتہائی کم (معمولی) اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جب تک حکومت خدمات کے شبعے میں اپنا 67 فیصد عمل دخل کم نہیں کرتی اُس وقت تک کوئی بھی سیاسی جماعت معاشی بحالی یا معاشی ترقی جیسے محاذ پر کامیاب نہیں گی۔ پاکستان کے معاشی مسائل سے نکلنے کی واحد صورت (راستہ) نجکاری اور ڈیریگولیشن ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ پیداوار کو زیادہ سے زیادہ کرنے کیلئے نجکاری اختیار کرے۔ سرکاری اخراجات میں کمی کیلئے بھی نجکاری ہی ضروری ہے۔
تمام سرکاری کاروباری اداروں کے مالی اور آپریٹنگ کنٹرول کو نجی شعبے میں منتقل کرنے کے سوا معاشی بحالی کا کوئی دوسرا‘ آسان اور قابل عمل راستہ نہیں ہے۔تصور کریں کہ حکومت پاکستان گندم کے شعبے‘ چینی کے شعبے‘ پیٹرولیم‘ کھاد‘ آٹو موبائل اور بجلی کے شعبوں کو چلا رہی ہے۔ تصور کریں کہ تین درجن سرکاری محکمے اور ایجنسیاں ہیں جو ’این او سی‘ گرانٹ لائسنس‘ آرڈر آڈٹ اور پرمٹ جاری کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ معاشی ترقی نہ ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔یعنی کسی بھی ملک کی پائیدار ترقی کیلئے ضروری ہے کہ وہاں پر نجی اور سرکاری شعبے کے درمیان تقسیم کار کا توازن قائم رہے اور سرکاری شعبے پر بوجھ نہ پڑے ورنہ اس کے نتیجے میں معیشت غیر مستحکم ہو سکتی ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)