قومی سلامتی‘ لاحق خطرات

پاکستان کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات ہمیشہ ہی سے پیچیدہ رہے ہیں اور فی الوقت بھی ریاست کی سالمیت اور عوام کی خوشحالی کیلئے سنگین چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ یہ خارجہ و داخلی خطرات بہت سے معاملات میں ایک دوسرے سے جڑے اور ایک دوسرے کی تقویت کا باعث بھی ہیں اور براہ راست یا بالواسطہ طور پر لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کر رہے ہیں۔  افسوس کی بات ہے کہ اِن سے نمٹنے کی زیادہ سنجیدہ کوششیں دیکھنے میں نہیں آتیں۔ اِن کے علاوہ سویلین حکومتوں نے عام طور پر قومی سلامتی کی پالیسی وضع کرنے کی حد تک کردار ادا کیا ہے جبکہ مسلح افواج کی قیادت و کارکردگی کو اِس سلسلے میں ذمہ داری سونپی ہے جبکہ قومی سلامتی صرف کسی ایک ادارے یا اکائی کی ذمہ داری نہیں ہے۔یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ اِس سلسلے میں بھارت کا کردار کیا ہے اور کیا رہا ہے جو پاکستان کی داخلی سلامتی کے درپے ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے بھارت کی جانب سے غالب خطرے کی زد میں رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی خارجہ اور دفاعی پالیسی متاثر رہتی ہے۔ مسلح افواج کی طاقت و صلاحیت‘ امن کے وقت ان کی تعیناتی اور ہتھیاروں کے نظام کی نوعیت کا براہ راست اثر قومی سلامتی پر پڑتا ہے جس کا مقصد بھارتی خطرے کا مقابلہ کرنا بھی ہے۔ پاکستان کو معاشی طور پر نقصان پہنچانے کے لئے بھی بھارت نے سیاسی اور فوجی سطح پر انتہائی مخالفانہ انداز اپناتے ہوئے دباؤ برقرار رکھا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کو موجودہ قومی سلامتی پالیسی جاری رکھتے ہوئے بھارتی حکومت کے عزائم کا شکار ہونا چاہئے یا نہ صرف ان کا مقابلہ کرنے بلکہ پاکستان کو مضبوط بنانے کا بھی بہتر متبادل تیار رکھنا چاہئے؟ پاکستان کی جوہری صلاحیت اور انتہائی پیشہ ورانہ مسلح افواج بھارت کی جنگ جوئی کے خلاف ایک بڑی رکاوٹ (مزاحمت) ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جوہری دشمنی کی ایک قیمت ہے کیونکہ یہ وسائل ختم کرتا ہے اور معاشی و سیاسی ترقی کو دبا دیتا ہے۔ دفاع اور ترقی کے درمیان توازن بہت اہم ہے۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے سویلین حکومتوں کو معیار پر مناسب زور دیتے ہوئے تعلیمی بنیاد کو وسیع کرنے پر سنجیدگی سے توجہ دینے اور صحت اور بنیادی ڈھانچے کے لئے زیادہ وسائل وقف کرنے کی ضرورت ہے۔ تب ہی ہمارے ملک اور لوگوں کا مستقبل سنور سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس حالت زار میں رہنا چاہتے ہیں، کیا ہمارے پاس ان ممالک کی مثالیں نہیں ہیں جن میں بڑی دور اندیشی کے حامل رہنماؤں نے اپنی قوموں کی تقدیر بدل دی؟ پاکستان میں تیز رفتار معاشی ترقی کی اہم اہمیت کچھ سال پہلے نوٹ کی گئی تھی۔ یہ طویل مدتی سماجی و اقتصادی تبدیلی کا ایک فریم ورک تھا اور اس میں لوگوں‘ حکمرانی‘ پانی‘ توانائی اور غذائی تحفظ‘ آبادی پر قابو پانے اور علم پر مبنی معیشت وغیرہ پر توجہ مرکوز کرنے والے سات ترجیحی شعبوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس پر صرف جزوی طور پر عمل درآمد کیا گیا ہے کیونکہ یہ مجموعی طور پر اثر ڈالنے میں ناکام رہا۔ اگر ہم خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں متحرک عسکری تنظیموں سے لاحق سلامتی خطرات کی بات کریں جو مظہر ہے کہ کس طرح اِن صوبوں کی معاشی محرومی نے ان قوتوں کو جنم دیا اور اِنہیں تقویت دی ہے۔  یقینا قبائلی پٹی سے ملحقہ افغانستان میں خانہ جنگی اور حکمرانی کے سنگین چیلنجوں نے شورش کو مزید بڑھا دیا ہے۔ یہاں بھی حکومت کو ان مسائل کے بارے میں طویل مدتی نقطہ نظر اپنانے اور اعلی ترجیحی بنیادوں پر تعلیم اور ان شعبوں کی عمومی ترقی پر سنجیدگی سے توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، اب تک کیا کیا جانا چاہئے اور کیا کیا گیا ہے اس کے درمیان بہت فاصلہ (خلیج) حائل ہے۔ پاکستان کی ضرورت یہ ہے کہ سیاست کی پوری ثقافت کو بدلا جائے۔ خیبرپختونخوا کی تعمیروترقی کیلئے وسائل مختص کئے جائیں اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان مختص وسائل کا صحیح مقاصد کیلئے استعمال ہو۔ یہی قبائلی پٹی میں عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی ضمانت ہوگی۔ منشیات کی سمگلنگ روکنا ہوگا کیونکہ اس سے قومی سلامتی کیلئے خطرہ بننے والوں کو جنم اور تقویت ملتی ہے جو پہلے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نرمی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ان سبھی سیاسی‘ معاشی اور سلامتی کے معاملات کو ثانوی سمجھ کر پے در پے حکومتوں نے شہریوں کی حالت زار کو مزید خراب کر دیا ہے۔ اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ سرحدی علاقوں میں بدنظمی کا دھچکا شدید ہوگا۔ پہلے ہی دہشت گرد حملوں میں اضافہ اور سرحدی تجارت میں کمی اس بات کی طرف کا اشارہ کر رہے ہیں۔ ہمارے قومی فیصلہ سازوں کی جانب سے پاکستانی سیاست کا موجودہ طرز عمل قومی مسائل کو حل کرنے میں کم سے کم مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ پارلیمنٹ میں اقتصادی اور سلامتی کے معاملات پر  سنجیدہ بحث کی ضرورتہے، ساتھ ہی ضروری ہے کہ قومی سلامتی کے مختلف پہلو اور اِس سلسلے میں ضروریات (وقتی تقاضوں) کو کماحقہ سمجھا جائے۔ (بشکریہ: ایکسپریس ٹریبون۔ تحریر: لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)