پاکستان میں ہرسال وفاقی اور صوبائی حکومتیں مختلف شعبوں کو سبسڈی (رعایت) دینے پر اربوں روپے خرچ کرتی ہیں لیکن اِس سبسڈی کا بڑا حصہ عوام کو نہیں بلکہ سرکاری اداروں کا خسارہ پورا کرنے پر خرچ کیا جاتا ہے جب بھی عوام کو سبسڈی دینے کی بات آتی ہے تو حکومتوں کے رویئے تبدیل ہوجاتے ہیں لیکن سرکاری اشرافیہ کی گرفت قومی خزانے پر قوی ہے جو ملک کے غریب ترین گھرانوں تک سبسڈی پہنچانے کے بجائے اِس کے بڑے حصے کو سرکاری اداروں میں تقسیم کر دیتی ہے اور خاص بات یہ ہے کہ سبسڈی ہر سال دینے کے باوجود سرکاری ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں اور اِن کا یہ بوجھ کسی بھی صورت کم نہیں ہو رہا۔ رواں سال کے اوائل میں اپنی نوعیت کا پہلا ”اینڈ ٹو اینڈ ڈیجیٹائزڈ ٹارگٹڈ کموڈٹی سبسڈی پروگرام“ شروع کیا گیا جو عوام تک سبسڈی پہنچانے کی کوشش تھی اور جسے احساس راشن رعایت کا نام دیا گیا؛ اس پروگرام نے لاکھوں مستحق گھرانوں کو براہ راست سرکاری سبسڈی پہنچانے کیلئے بنیادی ڈھانچہ فراہم کیاپہلے پانچ ماہ کے اندر اس پروگرام پر زبردست ردعمل دیکھنے میں آیا اور مستفید ہونیوالوں کیلئے چار کروڑ سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں‘ جن پر کاروائی کیلئے ایک مضبوط ’بینی فشری تصدیقی نظام‘ قائم کیا اور درخواست گزار چار کروڑ سے زائد خاندانوں کو اہل قرار دیا گیا‘ پھر حکومت تبدیل ہوئی‘ نئی حکومت نے یکم جولائی دوہزاربائیس سے اِس پروگرام کو ختم کرنیکا فیصلہ کیااور اسکی بجائے یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے تقسیم کی جانیوالی غیرہدف سبسڈی میں سولہ ارب روپے اضافہ کر دیا‘یوٹیلٹی سٹورز کا مقصد کسی ڈیجیٹل ہدف یا تصدیق کے بغیر سبسڈی فراہم کرنا ہے اور اِس سے مستحق و غیرمستحق دونوں طرح کے طبقات فائدہ اُٹھا سکتے ہیں مالی مشکلات اور تاریخ کی بلندترین افراط زر (مہنگائی) کے پیش نظر‘ غریبوں پر غیرمتناسب بوجھ ڈالا گیاوفاقی حکومت سے درخواست ہے کہ وہ احساس راشن رعایت پروگرام ختم کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے‘احساس راشن رعایت کا آغاز اسٹیک ہولڈرز کی وسیع مشاورت کے بعد کیا گیا تھا اور اس میں کئی خصوصیات ہیں‘ جو غریب گھرانوں کی مدد کرتی ہیں اور گیم چینجر ثابت ہوسکتی ہیں جبکہ اِس پر بدعنوانی یا اشرافیہ کی گرفت کے امکانات بھی کم ہیں اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کیا جائے مذکورہ پروگرام سے فائدہ اٹھانے کی اہلیت کیلئے معروضی معیار تشکیل دیا گیا جو دوہزاراکیس کی قومی سماجی اقتصادی رجسٹری کے ڈیٹا بنیادی ڈھانچے پر مبنی تھا اور یہ سماجی اقتصادی حالات کی بہتری پر مبنی تصور ہے۔ مذکورہ پروگرام ”معاشی ریڑھ کی ہڈی“ یعنی کریانا‘ یوٹیلٹی اور سی ایس ڈی سٹورز کا ملک گیر نیٹ ورک پر مبنی ہے‘ جن سے نئے ڈسٹری بیوشن چینلز بنانے کی بجائے سبسڈی تقسیم کرنے کے لئے فائدہ اٹھایا گیا تھا۔ مرچنٹ یونینوں کے ساتھ شراکت‘ متعدد شہروں کے دورے‘ سماجی تحریک اور نچلی سطح پر آگاہی مہمات کے ذریعے اس پروگرام نے پاکستان بھر کے 84فیصد اضلاع میں پندرہ ہزار سے زائد تاجروں کا نیٹ ورک تیار کرنے کیلئے ریٹیل آؤٹ لیٹ ’فٹ پرنٹ‘ حاصل کیا گیا اس سے ہمیں غریب ترین خاندانوں تک پہنچنے میں مدد ملی جہاں بھی وہ رہتے تھے تقسیمی چینلوں کو متحرک کرتے تھے منصوبہ یہ تھا کہ دوہزاربائیس کے کیلنڈر سال کے اختتام تک پچاس ہزار سے زائد تاجروں تک رسائی حاصل کی جائے مذکورہ پروگرام کی اہم خصوصیت شرکت کرنیوالے سٹورز کے پورے نیٹ ورک کو ڈیجیٹل بنانا تھا اِن سٹورز کو ’نیشنل بینک آف پاکستان‘ کی موبائل ایپ کے ذریعے ریئل ٹائم میں لنک کیا گیا‘ اس پروگرام نے چھوٹے اور اکثر غیر رسمی کریانہ سٹورز کو تکنیکی طور پر زیادہ سمجھدار بننے کے قابل بنایا‘مزید برآں‘ تاجروں کو آن لائن ڈیٹا بیس سے جوڑ کر اور انہیں جیو ٹیگ کرکے‘ مذکورہ پروگرام نے معیشت کے پہلے غیر دستاویزی حصے کو ڈیجیٹل طور پر دستاویزی شکل دینا شروع کیا‘اِس پروگرام نے بینک کھاتے کھولنے میں سہولت فراہم کرکے ہزاروں غیر بینک شدہ چھوٹے تاجروں کیلئے مالی شمولیت کو بہتر بنایا‘ان تاجروں کو مکمل طور پر ڈیجیٹل ادائیگی کے طریقہئ کار کے ذریعے تقریباً حقیقی وقت میں تقسیم کی جانیوالی سبسڈی کی ادائیگی کی گئی ان چھوٹے تاجروں کو بینکنگ خدمات تک رسائی حاصل کرنی تھی جن میں بچت‘ لین دین اور دیگر مالیاتی آلات کا استعمال شامل تھا جس سے انکے کاروبار کو مزید بڑھانے میں مدد مل سکتی تھی‘ لین دین کرنے کیلئے اہل افراد کو فہرست میں شامل تاجر یا یوٹیلٹی سٹور کا دورہ کرنا پڑتا تھا۔ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) اور اجناس کی خریداری کی تفصیلات میں کلید کرنے پر ایم پی او ایس‘ جو متعدد ڈیٹا بیس سے منسلک تھا نے مستفید ہونے کی اہلیت‘ خاندان کی نقل و حرکت اور حقیقی وقت میں سبسڈی کی دستیابی کی جانچ کی۔ لین دین کو مکمل کرنے کے لئے ایس ایم ایس پر مبنی او ٹی پی (OTP) خبرداری کی ضرورت تھی جو دھوکہ دہی کی روک تھام کے لئے استعمال کیا گیا۔ تاجر نے سبسڈی تقسیم کی اور سبسڈی کی رقم کا آٹھ فیصد کمیشن کے ساتھ چوبیس گھنٹوں میں تاجر کے کھاتے میں جمع کردی گئی‘ تاجر کو ’ایم پی او ایس‘ پر ہی تمام لین دین کرنا تھی تاکہ بدعنوانی کا امکان کم سے کم ہو‘احساس راشن رعایت کے ذریعے ڈیجیٹل ادائیگی کا طریقہ اختیار کیا گیا‘مذکورہ پروگرام کو اگر جاری رکھا جائے تو اس کے بنیادی ڈھانچے کو سبسڈی بڑھانے کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے پروگرام کے بنیادی ڈھانچے میں معمولی بیک اینڈ تبدیلیوں کیساتھ دیگر گھریلو خوراک کی ضروریات جیسا کہ گندم‘ دالیں اور کھانا پکانے کے تیل و گھی وغیرہ کو بھی سبسڈی میں شامل کیا جا سکتا ہے‘ ماہانہ سبسڈی کی رقم میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے‘ احساس راشن رعایت پروگرام حکومت کی مالی دانشمندی کا مظہر ہے اور اِس کے ذریعے غیر ہدف سبسڈی کو مرحلہ وار ختم کرنے کا موقع فراہم کیا جا سکتا ہے اُن گھرانوں کو ٹارگٹڈ سپورٹ فراہم کی جا سکتی ہے جو اِسکے حق دار ہیں‘احساس راشن رعایت پروگرام سے متعلق حکومت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور عوامی مفاد میں اِس راشن رعایت کو ختم کرنے کی بجائے اِس کے ذریعے دی جانیوالی سبسڈی بتدریج بڑھانی چاہئے (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر ثانیہ نشتر۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)