ضمنی انتخابات سے بڑھ کر

ایسا لگتا ہے کہ آج (17 جولائی) ہونے والے ضمنی انتخابات غیرمعمولی ہیں کیونکہ اِس میں پنجاب اسمبلی کی کل 371 نشستوں میں سے صرف بیس یا قریب پانچ فیصد کا فیصلہ ہونا ہے لیکن درحقیقت ضمنی انتخابات سے کہیں زیادہ خطرات لاحق ہیں جو نہ صرف صوبے میں بلکہ قومی سطح پر بھی ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ یہ موضوع ان ضمنی انتخابات کے بعد بھی سرخیوں پر حاوی رہے گا کیونکہ سیاسی ایجنڈے میں اگلی بڑی ٹکٹ والی شے سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق بائیس جولائی کو شام چار بجے ہونے والا وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب ان ضمنی انتخابات کے نتائج سے براہ راست متاثر ہوگا۔ اگر مسلم لیگ (نواز) ان مسابقتی نشستوں کو کافی حد تک حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں موجودہ اور ووٹنگ ایم پی اے میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کے بعد وزیر اعلی کی نشست برقرار رکھنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔

 وزیر اعلی کے انتخاب کا پہلا دور اپریل کو انتہائی افراتفری کے حالات میں ہوا تھا۔ حمزہ شہباز نے 197ووٹ حاصل کئے تھے جن میں تحریک انصاف کے پچیس ایم پی اے بھی شامل تھے جنہوں نے اپنی پارٹی کی مخالفت کی تھی اور وزیر اعلی ٰ کی حیثیت سے حریف جماعت لیگ (نواز) کے امیدوار کو ووٹ دینے کا انتخاب کیا تھا حالانکہ انہیں ایوان میں اپنی نشستیں کھونے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سترہ مئی کے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد کہ وزیر اعلی ٰ کے انتخاب سمیت مخصوص اسمبلی کاروائیوں میں نقص پیدا کرنے والے ارکان اسمبلی کے ووٹوں کی گنتی نہیں کی جائے گی۔ حمزہ شہباز کو حاصل حمایت میں پچیس اراکین کی تعداد کم ہو گئی جو 172 ہے اور پہلے راؤنڈ میں کامیابی کیلئے درکار اسمبلی کی کل رکنیت کے نصف یعنی چودہ ووٹ کم ہے۔ ایسی صورت حال میں آئین میں دوسرے راؤنڈ کی گنجائش ہے جس میں جیتنے والے کو اسمبلی چیمبر میں موجود ایم پی اے کی اکثریت حاصل کرنے اور رن آف راؤنڈ میں ووٹنگ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دونوں امیدواروں کی حمایت کرنے والی جماعتوں اور ان کے اتحادیوں کی موجودہ طاقت اور اس حقیقت کے پیش نظر کہ عدالتی حکم سے پارٹی بدلنے کا دروازہ مضبوطی سے بند ہو چکا ہے۔

 یہ ایک پیشگی نتیجہ ہے کہ دونوں امیدواروں میں سے کوئی بھی 186ووٹ حاصل نہیں کر سکے گا اور اس لئے پوری توجہ موجودہ اور ووٹنگ ایم پی اے کی سادہ اکثریت اکٹھا کرنے پر مرکوز ہوگی۔ اطلاعات کے مطابق نواز لیگ نے اپنے تین باغی ارکان کی حمایت حاصل کر لی ہے جبکہ ایک نے استعفیٰ دے دیا ہے جس سے اس کی تعداد 172 ہونی چاہئے۔ تحریک انصاف نے اپنے پانچ ارکان کو خواتین اور غیر مسلم اقلیتوں کیلئے مخصوص نشستوں پر منتخب بھی کروایا ہے۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے یہ نئے ارکان بائیس جولائی کو ہونے والے انتخابات میں ووٹ ڈال سکیں گے‘ اُس وقت پی ٹی آئی اور پی ایم ایل کیو کے اپنے حریف اتحاد پر کچھ برتری حاصل ہو جائے گی تاہم آج (سترہ جولائی) کے روز ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج اِس پورے منظرنامے کو بدل سکتے ہیں لہٰذا دونوں گروپوں کے لئے سترہ جولائی کو زیادہ سے زیادہ نشستیں جیتنا انتہائی اہم ہے لیکن کھیل یہیں ختم نہیں ہوتا۔ پنجاب میں حکومت کی تبدیلی جو ملک کی نصف سے زیادہ آبادی پر مشتمل سب سے بڑا صوبہ ہے‘ کمزور وفاقی حکومت کو غیرمستحکم کر سکتا ہے اور ڈومینو اثر کو متحرک کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں نئے انتخابات ہو سکتے ہیں جن کے لئے نہ تو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) اور نہ ہی معیشت تیار ہے۔ 

اگر ہم تسلیم کریں کہ اس پورے منظرنامے کے باوجود جمہوری عمل اور قانون کی حکمرانی چل رہی ہے تو ہو سکتا ہے کہ ہر فریق نے کسی نہ کسی وقت قانون کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش کی ہو لیکن عدالتوں نے فیصلہ دیا ہے اور بالآخر دونوں فریقوں نے اپنے تحفظات کے باوجود عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو تسلیم کر رہے ہیں۔ ’ای سی پی‘ ضمنی انتخابات کی نازک نوعیت سے چوکس نظر آتا ہے۔ اس نے ضلعی نگرانی کرنے والی ٹیمیں تعینات کی ہیں جو موقع پر انتخابی قوانین کی خلاف ورزی اور ضرورت سے زیادہ اخراجات جیسے ضابطہئ اخلاق کی روک تھام کریں گی۔ انتخابات تنازعات کے حل کرنے اور آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنے کا ایک مہذب طریقہ ہوتا ہے اور اس ملک کے ہر فرد کیلئے یہ ضروری ہے کہ آگے بڑھنے کا یہ پرامن طریقہ کامیاب ہو تاہم بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ ان انتخابات کی نازک نوعیت اور گزشتہ چند ہفتوں کے دوران دونوں جماعتوں کی جانب سے مسلسل بڑھتی ہوئی بیان بازی نے انتخابی منظر نامے کو زیادہ شعلہ بیاں (آتش گیر) بنا دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے طلب کردہ سول انتظامیہ‘ پولیس اور مسلح افواج کی جانب سے امن و امان کی برقراری اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد دو اہم ترین کام ہیں۔ 

سیاسی جماعتوں کو اپنی بیان بازی کے ذریعے اداروں کی مدد کرنی چاہئے اور اِن کے کام کو مزید آسان بنانا چاہئے۔ضمنی انتخابات کے بعد دوسرا چیلنج یہ ہوگا کہ ضمنی انتخابات کے نتائج کو قبول کر لیا جائے۔ جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب کے منظم انتخاب کا انحصار ہوگا۔ پچھلے وزیر اعلی کے انتخاب نے اسمبلی چیمبر کو حقیقی میدان جنگ میں تبدیل کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے۔ سوائے اس کے کہ دونوں جماعتوں نے ایک چھت کے نیچے بیٹھنا چھوڑ دیا ہے اور یہاں تک کہ ایک مرحلے پر دونوں جماعتوں نے علیحدہ علیحدہ اسمبلی اجلاس تک بلائے تھے۔ آخری بار وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے موجودہ سپیکر کی امیدواری سے معاملات مزید پیچیدہ ہو گئے تھے اور یہ صورتحال برقرار ہے۔ عام طور پر یہ کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ڈپٹی سپیکر کو عدالت نے وزیر اعلی کے انتخاب کیلئے قائم مقام سپیکر اور پریذائیڈنگ آفیسر کے طور پر نامزد کیا ہے لیکن اصل امتحان یہ ہے کہ کیا اسمبلی سیکرٹریٹ ڈپٹی سپیکر کے ساتھ مؤثر تعاون کرے گا؟ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: اے بلال محبوب۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)