وزیر اعظم شہباز شریف نے بڑی مہارت سے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے تو بچا لیا ہے لیکن اس قومی خدمت کیلئے اُنہیں سیاسی ساکھ کے نقصان کی صورت بھاری قیمت چکانی پڑی ہے۔ وزیر اعظم کے لئے یہ قومی مفاد بمقابلہ پارٹی مفاد تھا۔ اچھی خبر یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ معاشی دباؤ کا دور گزر چکا ہے لیکن بدترین افراط زر سے ابھی پیچھا چھڑانا باقی ہے۔ یقینی طور پر‘ دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ معاشی مندی کے دور سے گزر رہا ہے (امریکہ میں‘ کساد بازاری کی حد یہ ہے کہ مسلسل دو سہ ماہیوں سے ملک کی جی ڈی پی کی شرح نمو منفی ہے)۔ اِسی طرح یورو زون بیلجیم‘ جرمنی‘ آئرلینڈ‘ اسپین‘ فرانس‘ اٹلی‘ لکسمبرگ‘ نیدرلینڈز‘ آسٹریا‘ پرتگال‘ فن لینڈ‘ یونان‘ سلووینیا‘ قبرص‘ مالٹا‘ سلوواکیہ‘ اسٹونیا‘ لٹویا اور لتھوانیا بھی کساد بازاری کے دور سے گزر رہے ہیں اور اِن ممالک کے معاشی حالات بھی امریکہ سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ پاکستان کے لئے عالمی کساد بازاری (معاشی مندی) میں ایک بری اور ایک اچھی خبر پوشیدہ ہے۔
بُری خبر یہ ہے کہ پاکستان کی برآمدات کم ہوئی ہیں کیونکہ عالمی مندی کی وجہ سے پاکستان سمیت ہر ملک کی برآمدات کی مانگ میں کمی آئی ہے اور اچھی خبر یہ ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کم ہوئی ہے اور اگر پاکستان چاہے تو اِس کم قیمت سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ پاکستان کے لئے تجارتی خسارے (درآمدات اور برآمدات کے درمیان فرق) کو اعتدال پر رکھنا اہم ہے اور کوئی ایسی صورت اختیار کرنی ہے جس میں پاکستان کے جاری اخراجات (کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ) کم ہو سکے۔ دوسری طرف پاکستان دو قسم کے افراط زر کے دباؤ میں ہے۔ ایک توانائی کی عالمی قیمتوں اور پام آئل کی قیمت میں اضافے کے نتیجے میں ہے جسے ”درآمدی افراط زر“ کہا جاتا ہے اور دوسرا ملکی سطح (گھریلو مارکیٹ) میں ’کارٹل پرائسنگ‘ کا ہے جسے ریکارڈ کرنے کے لئے حکومت پاکستان کا ”درآمدی افراط زر“ پر کوئی کنٹرول نہیں ہے لیکن اس نے مقامی (اندرون ملک) سطح پر ’قیمتوں میں کمی‘ کے لئے کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے۔
جب ترقی یافتہ دنیا کساد کی طرف بڑھ رہی ہے تو پاکستان کے کارپوریٹ ادارے بشمول بینک اچھی (بامنافع) مالی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جب ترقی یافتہ دنیا کساد کی طرف بڑھ رہی ہے تو پاکستان میں بھی صارفین مہنگائی کے بوجھ تلے دے ہوئے ہیں۔ جی ہاں‘ پاکستان میں قریب نصف درجن ایسی گھریلو عام استعمال کی اشیا ہیں جن کی قیمتیں کم کرنے کی ضرورت ہے۔امریکہ کے ’مرکزی بینک فیڈرل ریزرو‘ نے جارحانہ انداز میں شرح سود میں اضافہ کیا ہے جس سے امریکی ڈالر کی قدر دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ سات ماہ کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں سولہ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ تصور کریں کہ یورو اب بیس سال میں پہلی مرتبہ ڈالر کے برابر ہے۔
وزیر اعظم کو اپنے وزرأ کو حکم دینا چاہئے کہ وہ ’ہر فضول اور غیر ضروری ضابطے کی فہرست پیش کریں‘ جو معیشت کو سست کر رہا ہے اور ملازمتوں کو کم کر رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہونے کے خطرے سے نکل چکی ہے اور اب ضرورت اِس معیشت کو انجن لگا کر آگے بڑھانے کا ہے جس کے لئے عوام کو کچھ ریلیف ملنا چاہئے۔ معاشی سرگرمیوں میں اضافے سے بھی حکومت کو ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی میں اضافہ ممکن ہے۔ پاکستان اگرچہ بدترین معاشی دور سے نکل چکا ہے لیکن اِس درپیش معاشی چیلنجز برقرار ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)