قابل علاج: ذہنی عوارض

The cost of coping
 دنیا کی ایک چوتھائی آبادی رکھنے والے جنوبی ایشیائی ممالک (افغانستان‘ بنگلہ دیش‘ بھوٹان‘ بھارت‘ مالدیپ‘ نیپال‘ پاکستان اور سری لنکا) میں ذہنی امراض عام ہیں۔ اِن ممالک میں پندرہ سے بیس کروڑ افراد اضطراب‘ ڈپریشن‘ بائی پولر ڈس آرڈر‘ خودکشی کے رویئے‘ خوف (فوبیا) اور نشہ آور اشیاء کے غلط استعمال کا شکار ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کا مینٹل ہیلتھ گیپ ایکشن پروگرام‘ ڈپریشن‘ بائی پولر ایفیکٹیو ڈس آرڈر‘ شیزوفرینیا اور دیگر نفسیاتی عوارض جیسا کہ ڈیمینشیا فکری معذوری اور آٹیزم جیسے امراض کو ترجیحی ذہنی اور اعصابی بیماریوں کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جنوب ایشیائی خطے کے آٹھ ممالک میں پاکستان میں ذہنی مریضوں کی زیادہ آبادی رکھتا ہے جس کا ذکر ”فرنٹیئرز ان سائیکاٹری 2020ء“ نامی سالانہ رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ امیروں سے لے کر غریبوں تک‘ ذہنی صحت کے مسائل کی بہتات ہے۔ صحت کے کمزور بنیادی ڈھانچے اور منظم بنیادی دیکھ بھال کی عدم موجودگی کی وجہ سے بیماریوں کا بوجھ بہت زیادہ ہے اور خاطرخواہ مدد دستیاب نہیں ہے۔ نفسیاتی ماہرین اور دیگر ذہنی صحت کے پیشہ ور افراد اور وسائل کی کمی کے علاوہ بھی ہے جس کی وجہ سے ذہنی صحت سے جڑے مسائل حل نہیں ہوتے اور نتیجتاً آبادی کا ایک بڑا حصہ ”لاوارث“ ہے۔ شادی سے متعلق مسائل‘ سسرالیوں کے روئیوں اور گھریلو تشدد کی وجہ سے بہت سی خواتین کو ڈپریشن ہونے کا خطرہ ہے اور ایک منفی رویہ یہ بھی عام ہے کہ ذہنی امراض کو ’کمزوری کی علامت‘ سمجھا جاتا ہے جبکہ دیگر بیماریوں کی طرح یہ بھی ایک قسم کی بیماری ہی ہیں۔ کام اور گھر سے متعلق دباؤ‘ ناجائز منشیات اور نشہ آور اشیا کا استعمال‘ بچپن کا کوئی صدمہ اور ذہنی صحت سے متعلق خاندانی تاریخ‘ مردوں میں پائے جانے والے ڈپریشن کی عمومی علامات اور معاون عوامل ہیں۔ غربت‘ ناخواندگی اور بے روزگاری ذہنی صحت کے مسائل کی بنیادی وجوہات ہیں۔ صنفی بنیاد پر خواتین پر تشدد سے ذہنی صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور اِس کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اِسی طرح جسمانی استحصال کا نشانہ بننے والی خواتین کا ایک زیادہ فیصد پریشان اور افسردہ پایا گیا جس کی وجہ سے ذہنی صحت کا گھناؤنا چکر شروع ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ڈپریشن نوجوانوں اور بوڑھوں کو یکساں طور پر متاثر کر رہا ہے۔ 2020ء میں کئے گئے ایک منظم جائزے (مطالعے و تحقیق) سے علم ہوا کہ یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے والے 42.6 فیصد طلبہ میں افسردگی کی علامات پائی جاتی تھیں۔ کراچی سے آبادی پر مبنی کراس سیکشنل مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ معمر افراد پر مشتمل 40.6فیصد آبادی پر ڈپریشن کا غلبہ ہے۔ ذہنی صحت کو صحت کی بنیادی دیکھ بھال میں ضم کرنا چاہئے اور اگر ایسا کیا گیا تو اِس کے کئی گنا زیادہ فوائد حاصل ہوں گے۔ ماہرین نفسیات کو بنیادی نگہداشت مراکز میں رکھنے سے ابتدائی مرحلے میں ذہنی صحت کی بہبود اور معاونت حاصل ہوگی۔ کورونا وبا کے دوران اور اس کے بعد ذہنی صحت کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔  تناؤ سے نمٹنے کے لحاظ سے اسے پہچاننا اور کسی ماہر معالج سے مشورہ ضروری ہے۔ ذہنی دباؤ کو کم کرنے میں خاندان کے افراد‘ دوست احباب بھی کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں اور دوا کی طرح یہ بات بھی یکساں اثر رکھتی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی کے مثبت تجربات کا دوسروں کے ساتھ تبادلہ کرے اور اُس کے ساتھ کامیابیوں پر مبنی عملی زندگی کی مثالوں کو شیئر کرے۔ ذہنی عوارض کی روک تھام ممکن ہے جس کیلئے مرض کی ابتدا ہی میں شناخت اور اِس کی ابتدائی حالت ہی میں علاج پر توجہ مرکوز کی جانی چاہئے جس کے لئے ضروری ہے کہ اکثریتی آبادی کو ذہنی امراض کے علاج اور ذہنی صحت کی دیکھ بھال کے ماہرین اور اِس سلسلے میں کئے جانے و الے خصوصی انتظامات تک رسائی حاصل ہو۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عبدالجلیل خان۔ ڈاکٹر حنا جواد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)