بلند و بالا عمارتیں‘ اوور ہیڈ پل‘ انڈر پاس‘ بل بورڈز‘ دھواں اور دھول میں گھرا ہوا ”لاہور“ ایک ایسا شہر ہے جس کے اکثر حصوں میں فضائی آلودگی خطرناک سطح سے بلند ہے اور یقینا کوئی بھی شخص ایسے آلودہ شہر میں رہنا یا اِس کی سیر نہیں چاہے گا جہاں اُس کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو۔ لاہور شہر کی آبادی قریب ایک کروڑ دس لاکھ ہے اور یہ شہر 3.6 فیصد کی سالانہ اوسط سے پھیل رہا ہے۔ شہر کی طرف مسلسل نقل مکانی کے ساتھ لاہور کی آبادی مستقبل میں مزید بڑھنے والی ہے۔ موسم گرما کی ناقابل برداشت اور جھلسا دینے والی گرمی اور مون سون بارشوں کے ساتھ فضائی آلودگی کے بگڑتے ہوئے معیار اور سال کے آغاز میں سموگ کی خطرناک سطح کے ساتھ لاہور میں بارشوں سے سیلاب بھی آتے ہیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی لاہور کو درپیش خطرات کو کم نہیں کیا جاتا تو آخر ہم کہاں جا رہے ہیں؟لاہور کو مقامی اور غیرمقامی لوگ اپنی اپنی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مقامی لوگوں کیلئے لاہور کی بدلتی ہوئی آب و ہوا ”مایوس کن“ ہے کیونکہ یہ شہر ہر سال پہلے سے زیادہ آلودہ اور پہلے سے زیادہ گنجان آباد ہو رہا ہے جبکہ منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے شہری و دیہی علاقوں کی تمیز بھی نہیں رہی۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ لاہور اپنا جادو کھو رہا ہے۔
وہ سبھی لوگ جو لاہور کی شہری زندگی سے لطف اندوز ہونے میں مصروف ہیں اس حقیقت کو فراموش کر رہے ہیں کہ اُنہوں نے اپنے گردوپیش (ماحول) کو کچھ زیادہ ہی نظر انداز کر دیا ہے۔ نتیجتاً آج کا لاہور ایک کنکریٹ کا جنگل ہے جہاں شہر کے ہر کونے میں آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں‘ شاپنگ کمپلیکس اور ہاؤسنگ سوسائٹیاں تعمیر ہو رہی ہیں۔ لاہور شہر کے مضافات جو کبھی درختوں اور سرسبز زمینوں کا مجموعہ ہوا کرتا تھا اب وہاں سڑکیں‘ پلیں اور اونچے اپارٹمنٹس نظر آتے ہیں۔ حکام میں ماحولیات کے تحفظ کا عزم نہیں تاکہ ہم جس ماحول میں رہتے ہیں اس کے بارے میں فکر مند ہوں اگرچہ سال کے آغاز میں سموگ کا بحران ماحولیاتی بحران کو سمجھنے کیلئے کافی تھا جس کا ہمیں آج سامنا ہے۔ کراچی میں شہری سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہی یقینی طور پر بہت دیر سے پہلے دیکھی جانی چاہئے تھی لیکن یہ دیکھنا بدقسمتی کی بات ہے کہ لاہور کے کچھ انتہائی پوش اور ترقی یافتہ علاقے بھی چند گھنٹوں کی بارش سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ بارش کے بعد بھی بارش کا پانی اہم شاہراؤں کو بند کر دیتا ہے۔ تمام متعلقہ سٹیک ہولڈرز کیلئے اِس حقیقت کو نگلنا مشکل ہے‘ چاہے وہ مالک ہوں یا سیاست دان کہ اس تباہی کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر ہے لیکن یہ یقینی طور پر ایک ایسا مسئلہ ہے جو اب عوام کی نظروں سے نہیں بچ سکتا۔
وقت ہے کہ ہم اپنے ماحول اور بالآخر اپنی زندگیوں کو پہنچنے والے نقصان کا احساس کریں اور بہت دیر ہونے سے پہلے ہی غفلت کے اس بلبلے سے باہر نکلیں۔ لاہور کے ایک رہائشی کے لئے اب تک مختلف موسم کیسے گزرے ہیں اس کا ایک فوری احوال یہ ہے: اس سال موسم سرما کا آغاز اسموگ سے ہوا جس کے ساتھ لاہور میں سانس تک لینا مشکل ہو گیا۔ موسم بہار کا تجربہ اب خواب لگتا ہے کیونکہ اس سال مارچ کا آغاز کے ساتھ ہی موسم گرما شروع ہوگیا اور بہار نہیں دیکھی گئی جو خطرے کی گھنٹی ہے کہ ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے موسموں کو تباہ کر دیا ہے۔ اسی طرح موسم گرما کی ناقابل برداشت گرمی نے لاہور میں درجہ حرارت اڑتالیس ڈگری سنٹی گریڈ تک بڑھتے دیکھا اور اس وقت ہمیں شہری سیلاب کے منڈلاتے خطرات کا سامنا ہے‘ کوئی صرف یہ سوچ سکتا ہے کہ لاہور کا مستقبل کیا ہے! آئیے صرف یہ امید کریں کہ جو لوگ حالیہ ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں وہ عوام کی خدمت کے اپنے عہد کو برقرار رکھیں گے اور اس بار عوام کی خدمت کریں گے۔ یہاں ایک خیال ہے‘ اسٹارٹرز کے لئے کہ جیتنے والے انتخابی امیدوار اپنے علاقوں کے نکاسی آب کے نظام کو درست کریں اور لاہور پر منڈلاتے ہوئے سیلاب کے موجودہ خطرے سے نمٹنے میں عوام کی مدد کریں۔جنگلات کی کٹائی اور باقی ماندہ سرسبز زرخیز زرعی زمینوں کو محفوظ کرنے کی بھی ضرورت ہے اور اِس سلسلے میں صرف شہریوں ہی کو نہیں بلکہ حکام کو بھی تشویش کا اظہار کرنا چاہئے۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ملک کے دیگر شہروں میں سہولیات کی فراہمی اور دیگر شہروں میں روزگار کے مواقع پیدا کرکے لاہور کی طرف نقل مکانی کی حوصلہ شکنی کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ مسئلہ محض لاہور کا نہیں بلکہ وطن عزیز کے زیادہ تر شہروں پر آبادی کا دباؤ ہے جس کے باعث وہاں پر زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی ایک مسئلہ بنا ہوا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی مسائل بھی سر اٹھا ر ہے ہیں۔ کیونکہ شہروں کی تعمیر اور اس کی منصوبہ بندی میں مستقبل کے تقاضوں کو مند نظر نہیں رکھا گیا۔ ایسے میں اگر موجودہ شہروں کیلے خصوصی پروگرام لائے جائیں جن کے ذریعے وہاں پر صفائی، پانی اور دیگر اہم بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے حوالے سے تیزی کے ساتھ کام کیا جائے اور جہاں تک نئے شہروں اور رہائشی منصوبوں کا تعلق ہے تو اس ضمن میں قواعد و ضوابط کی پوری پابندی کی ضرورت ہے، خاص طور پر یہاں ماحول کو صحت دوست رکھنے پر بھر پور توجہ دی جائے اور درختوں کو کسی بھی نئی آبادی کا لازمی حصہ سمجھا جانا چاہئے۔بصورت دیگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسائل زیادہ گمبھیر ہونا شروع ہوجائیں گے جن کو حل کرنے کیلئے زیادہ وقت اور سرمائے کی ضرورت ہوگی۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: میمونہ قاضی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)