پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج آچکے ہیں‘ ان انتخابات کی ضمنی حیثیت اور دھاندلی کی افواہوں کے باوجود عوام نے ووٹ کا حق استعمال کیا اور پاکستان تحریک انصاف کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ ایک جانب پندرہ نشستوں پر کامیابی سے جہاں پی ٹی آئی پر 2018ء کی جیت کا داغ دھل گیا ہے وہیں پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے سیاسی بلوغت اور وقار کا ثبوت دیتے ہوئے شکست تسلیم کی ہے۔ ابھی ان انتخابات کا تفصیلی تجزیہ کرنا اور یہ بتانا قبل از وقت ہے کہ آخر ہوا کیا۔ آیا مسلم لیگ (نواز) کے ووٹر نے اپنی وفاداری تبدیل کرلی یا وہ بس گھر میں ہی بیٹھا رہا؟ کیا پی ٹی آئی نے نئے ووٹرز تلاش کر لئے؟ کیا یہ منحرف اراکین کے خلاف غصہ تھا‘ عمران خان سے ہمدردی تھی کہ جن کے خلاف باقی ساری جماعتیں کھڑی تھیں؟ یا پھر اس میں مہنگائی کا بھی عنصر شامل تھا؟ اس انتخابی کامیابی کے کچھ گھنٹوں بعد آنے والے ابتدائی خیالات یہاں رقم کررہی ہوں کیونکہ کہتے ہیں کہ صحافت تاریخ کا پہلا مسودہ ہوتا ہے۔ زیادہ تر تجزیہ کاروں کی آرأ کے برخلاف انتخابات میں ٹرن آؤٹ بہت زیادہ رہا۔ کراچی میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات میں یہ ٹرن آؤٹ بہت ہی کم تھا۔
ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق اتوار کے روز یہ ٹرن آؤٹ تقریباً چالیس فیصد تھا جبکہ ضمنی انتخابات میں ٹرن آؤٹ اوسطاً بیس سے پچیس فیصد رہتا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ زیادہ ٹرن آؤٹ کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ انتخابات کی نوعیت کیا ہوگی۔ اگر امیدوار اور ووٹرز سخت مقابلے کی امید رکھتے ہوں تو پھر لوگ ووٹ دینے گھروں سے نکلتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کسی کو نتائج کی فکر نہ ہو تو ٹرن آؤٹ کم ہوتا ہے۔ ایسا ہی کچھ لاہور میں دیکھنے میں آیا جہاں اکثر لوگوں کی رائے میں مسلم لیگ (نواز) کے اسد کھوکر کی جیت آسان تھی نتیجتاً وہاں بہت کم ٹرن آؤٹ رہا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مقابلہ جتنا سخت ہوگا جمہوریت کیلئے اتنا ہی بہتر ہے۔ کچھ دنوں سے پی ٹی آئی کے حق میں چلنے والی ہوا واضح نظر آ رہی تھی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کئی تجزیہ کار اس بات پر بحث کرنے کے بجائے کہ پنجاب مسلم لیگ (نواز) کا گڑھ ہے۔ الیکشن کے دن کی کارکردگی اور الیکشن مینجمنٹ پر بھی زور دے رہے تھے۔ یہ بات دراصل عوام کے موڈ کی جانب ایک اشارہ تھا۔ ان حالات میں کسی ایسے شخص کو ڈھونڈنا مشکل تھا جو پنجاب میں مسلم لیگ (نواز) کی مقبولیت کی بات کرے اور کہے کہ کس طرح یہ مقبولیت اس کی جیت کو یقینی بناتی ہے۔
اس کے علاؤہ حلقہ جات کے اکثر سروے کتنے ہی غیر سائنسی کیوں نہ ہوں لیکن وہ یا تو پی ٹی آئی کی مقبولیت کی نشاندہی کررہے تھے یا پھر کانٹے کے مقابلے کی۔ ایسا مہنگائی اور پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو ٹکٹ دینے کی وجہ سے ہوا۔ ہر کوئی پارٹی کے اندر موجود اختلافات سے واقف تھا جہاں پارٹی ٹکٹ کے معاملے پر پارٹی کے اپنے لوگ باہر والوں کی حمایت نہیں کررہے تھے۔ سینیئر صحافی حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اراکین نے حکومت گرانے کے لئے جس طرح اپنی جماعت سے دغا کیا اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور اس سے لوگ ناراض ہوئے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ لوگ اس ’اخلاقی معاملے‘ پر ردِعمل ضرور دیں گے‘ ایسا لگتا ہے کہ حبیب اکرم کا یہ کہنا درست تھا۔ ان ضمنی انتخابات کی مہم میں اہم چیز پی ٹی آئی کے صرف شہروں میں ہونے والے بڑے جلسے نہیں تھے بلکہ جنوبی پنجاب میں نظر آنے والی مقبولیت بھی تھی۔ خاص طور پر مظفر گڑھ اور بھکر کے جلسے غیر معمولی تھے۔ ویسے تو مریم نواز نے بھی بڑے جلسے کیے لیکن وہاں موجود لوگوں نے بڑی تبدیلیوں کی جانب اشارہ کیا۔ مثال کے طور پر ایک صحافی عامر خاکوانی نے توجہ دلوائی کہ جنوب کے صرف شہری علاقوں نہیں بلکہ دیہی علاقوں میں بھی تحریک انصاف کی مقبولیت نظر آرہی ہے۔
ویسے بھی وہاں کے شہری علاقوں میں تحریک انصاف پہلے بھی مقبول تھی۔ اصل میں ہم ایک طویل عرصے سے جنوبی پنجاب کو ایک ایسے علاقے کے طور پر دیکھتے آئے ہیں جہاں ہمیشہ الیکٹیبلز کا غلبہ رہا ہے جو اپنی وفادری بدلیں یا نہیں ان کی جیت یقینی ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک رکن (شفافیت کی غرض سے یہ بتانا ضروری ہے) سکندر بھدیرا نے کہا کہ اب جنوبی پنجاب کو ایسے علاقے کے طور پر نہیں دیکھا جاسکتا جہاں الیکٹیبلز راج کرتے ہوں اور سیاسی جماعتوں کیلئے جگہ تنگ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ’آبادی بڑھنے کی وجہ سے نئی نسل گاؤں سے باہر منتقل ہوئی ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ آزاد زندگی گزارنے کیلئے باہر ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’زمیندار بھی زمینیں بیچ رہے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے اثر و رسوخ میں بھی کمی آئی ہے‘۔ ان کا کہنا ہے کہ یوں میڈیا کے عمل دخل اور دیہی علاقوں کی آمدن میں ہونے والے اضافے کے ساتھ جنوب کے دیہی علاقوں میں بھی پارٹی ووٹ مضبوط ہونے لگا ہے۔ ممکن ہے کہ الیکٹیبلز اور دھڑوں جن پر ہم عموماً توجہ دیتے ہیں کے ساتھ ساتھ یہ رجحان بھی انتخابات پر اثر انداز ہوا ہو۔
امید ہے کہ آنے والے دنوں میں صحافی اور دیگر افراد اس حوالے سے مزید تحقیق کریں گے۔ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے بعد سے جو جارحانہ مہم چلائی اس کے نتیجے میں حالات بدلنے لگے۔ اس سے قبل پی ڈی ایم کی مہم کے دوران نواز شریف بھی یہی حکمت ِعملی اختیار کرچکے ہیں۔ آپ کو مریم نواز کا وہ بیان یاد ہوگا جس میں انہوں نے کہا تھا طاقتور ہی طاقتور سے بات کرتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما اپنی توانائیاں صرف اپنی سیاست کی حفاظت کے بجائے حکومت کرنے پر مرکوز کریں۔انتخابات کے نتائج پر فوری ردِعمل تو یہی ہے کہ مسلم لیگ (نواز) کو مہنگائی کی قیمت ادا کرنی پڑی ہے لیکن گزشتہ چار سال کی مہنگائی کی ذمہ دار تو ’پی ٹی آئی‘ تھی۔ تاہم مسلم لیگ (نواز) کے ووٹر یہ سمجھنے لگے کہ شاید ان کی جماعت اقتدار میں آکر سب کچھ درست کردے گی لیکن جب ایسا نہیں ہوا تو مسلم لیگ کا ووٹر حوصلہ ہار گیا لیکن اب اگر پی ٹی آئی بھی مہنگائی پر مسلم لیگ (نواز) کو قصور وار ٹھہراتی رہی تو اسے بھی اسی ردِعمل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس وقت اب تمام جماعتوں کو معیشت کے حوالے سے بہتر حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: عارفہ نور۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)